مقبوضہ مغربی غزہ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسیطنی طبی رضا کار جاں بحق ہوگیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بیت لحم کے نزدیک 17 سالہ ساجد مظہر کو جاں بحق کردیا گیا۔
اس حوالے سے فلسطین کے وزیر صحت نے بتایا کہ ’ساجد مظہر طبی رضا کار تھا اور اسرائیلی فوج نے اُس وقت فائرنگ کی جب وہ طبی مدد فراہم کر رہا تھا‘۔
سرحد میں ہونے والے احتجاج میں خواتین بھی زخمی ہوئیں—فوٹو: اے ایف پی
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے طبی رضاکار کی موت پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا اور موقف اختیار کیا کہ ’اسرائیلی فوجیوں نے پرتشدد ہجوم کا جواب دیا‘۔
وزارت صحت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’طبی رضا کار کے پیٹ میں گولی مار کر کے اسرائیلی فوجی جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں‘۔
فلسطین میڈیکل ریلیف سوسائٹی نے ساجد مظہر سے متعلق تصدیق کی اور بتایا کہ وہ بطور رضا کار سوسائٹی کا حصہ تھے اور جس وقت اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی ساجد مظہر زخمی مظاہرین کو طبی امداد فراہم کر رہے تھے۔
عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی طبی رضا کار کی موت کی ’سخت مذمت‘ کی۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ’ساجد مظہر کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ زخمی شخص کو طبی مدد فراہم کر رہے تھے‘۔
مغربی کنارے اور غزہ میں ڈبلیو ایچ او آفس کے سربراہ گیرلڈ روکین نے کہا کہ ’ہمیں رضا کار کی موت پر صدمہ ہے، طبی رضا کار لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں اور ان کا تحفظ ہر سطح پر یقینی ہونا چاہیے‘۔
واضح رہے کہ ایک برس قبل فلسطین سے تعلق رکھنے والے زخمی کو قتل کرنے والے سابق اسرائیلی فوجی نے جیل سے رہائی کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ انھیں اس عمل پر ’کوئی افسوس نہیں‘ ہے۔
فلسطینی زخمی شہری کو سر میں گولی مارنے کے جرم میں سزا پانے والے اسرائیلی فوجی ایلور عزریا نے رہائی کے تین ماہ بعد ایک انٹرویو میں اپنے جرم کے حوالے سے کھل کر اظہار کیا تھا۔