جنوبی امریکی ملک پیراگوئے نے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے محض چند ماہ بعد ہی فیصلہ واپس لیتے ہوئے ا سے واپس تل ابیب منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
برطانوی اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ کے مطابق یہ فیصلہ پیراگوئے نے نئے صدر ماریو ابدو بینٹز نے کیا ہے جنہوں نے گزشتہ ماہ کے وسط میں ہی اقتدار سنبھالا ہے، انہوں نے اپنے پیش رو کا فیصلہ 3 ماہ بعد ہی واپس لے لیا اور اسے جنوبی امریکی ریاست کی جانب سے غیر ضروری اقدام قرار دیا۔
خیال رہے کہ بیت المقدس اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعے کی ایک وجہ ہے اور زیادہ تر ممالک مذاکرات کے ذریعے اس کا حل چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس مئی میں بیت المقدس کو اسرائیلی داراحکومت قرار دیتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یہاں منتقل کیا تھا جس کے فوراً بعد پیرا گوئے اور گوئٹے مالا نے بھی اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس کرلیا تھا۔
اس حوالے سے بیان دیتے ہوئے پیراگوئے کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’ پیراگوئے خطے میں طویل مدتی ااور منصفانہ امن کے لیے علاقائی سفارتی کوششوں میں شراکت کرنا چاہتا ہے‘۔
دوسری جانب اسرائیل نے فوری طور پر اس اقدام کے رد عمل کے طور پر پیراگوئے میں نہ صرف اپنا سفارت خانہ بند کردیا بلکہ اپنے سفیر کو بھی واپس بلالیا۔
اس حوالے سے قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ فلسطین کی جانب سے پیراگوئے کے اس اقدام کو سراہا گیا اور سرکاری خبر رساں ادارے وفا کے مطابق وزیر خارجہ امور ریاض المالکی نے فوری طورپر پیراگوئے میں اپنا سفارت خانہ کھولنےکا اعلان کیا ہے۔
ادھر اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس پیراگوئے کو اپنا حالیہ فیصلہ واپس لینے اور سابق صدر کے کیے گئے فیصلے پر قائم رہنے کے سلسلے میں قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔