لکھنئو : (صالحہ رضوی، جرنلسٹ) : راجہ محمودآباد کا سانحہ انتقال سے سب صدمے میں ہیں۔ صرف انکے آبائی مکان محمودآباد ہی نہیں ورنہ بلیہرہ ریاست و قرب جوار کے علاقے میں غم و سوگ کا ماحول ہے۔
راجہ محمودآباد نے نہ صرف تحریک آزادی میں انقلابی کردار ادا کیا بلکہ معاشرے کو طاقتور بنانے کے لئے تعلیمی اداروں کا سنگِ بنیاد رکھنا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو یا پھر شیعہ کالج، یونیٹی کالج، و لکھنئو یونیورسٹی یا پھر مدرسہ الواعظین ہر جگہ آپنے محنت و مشقت کرکے ان اداروں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
غریبوں، مسکینوں و یتیموں کا مسیحا کہے جانے والے راجہ محمودآباد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر تعزیتی پوسٹ کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اللہ راجہ محمودآباد صاحب کو جوارِ معصومین علیہ السلام میں جگہ عنایت فرمائے و انکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کریں۔ آمین
راجہ امیر محمد خاں عرف سلیمان میاں کے انتقال پر احباب و دوستوں کا تعزیتی پیغام-
اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے چیف اکھلیش یادو نے سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے راجہ محمود آباد کے انتقال پر غم کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
مولانا سیف عباس نقوی
حسینہ جنت مآب تقی صا حب میں زیر صدارت مولانا سید سیف عباس دلدار علی غفران مآب فاؤنڈیشن کا ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا ۔ مولانا سید سیف عباس نے جناب محمد امیر محمد خان راجہ صاحب محمود آباد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتےہوئے کہاکہ اودھ کی تہذیب و ثقافت کی یادگارہمارے درمیان نہیں رہے ۔
مولانا سید سیف عباس نے کہاکہ خاندان جناب محمد امیر خاں المعروف راجہ محمود آباد سے ہمارے خاندان اجتھاد کےدرمیان تعلقات و مراسم بہت قدیمی ہیں ۔مرحوم کا انتقال ملت تشیع کا ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔ مرحوم اپنے بزرگوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے آج بھی خدمت عزا میں مشغول تھے ۔محمود آباد کے جلوس عزا میں پا پیا دہ چلنا اور زیا دہ سے زیا دہ غم مظلوم کر بلا میں خدمت کو انجام دیتے تھے ۔مرحوم عزاداری امام حسینؑمیں بڑے جو ش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔ ان کا مرثیہ خوانی کا انداز بیحد متاثر کن تھا۔
راجہ صاحب محمود آباد کے انتقال پر ادارہ تحفظ مرثیہ خوانی کا تعزیتی جلسہ
ادارہ تحفظ مرثیہ خوانی لکھنو کا ایک جلسہ ادارے کے نائب صدر فیض باقر کی رہائش گاہ واقع درگاہ حضرت عباس میں ادارے کے صدر مولانا مرزا اعجاز اطہر صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا ۔
جس میں محمد امیر محمد خان راجہ صاحب محمود آباد کے سانحہ ارتحال پر رنج و غم کا اظہار کیا گیااور ان کی سماجی ، ادبی و ملی اور مرثیے سے متعلق خدمات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی روح مقدس کو سورہ فاتحہ ارسال کیا۔
اس جلسے میں مولانا مرزا جعفر عباس ،ڈاکٹر فخر الحسن رضوی، ڈاکٹر ثروت تقی، کامل رضوی،مولانا ابو طالب مہدی ،اسد رضوی، لائق حسین ،عباس عارش نے شرکت کی۔
حوزہ علمیہ ابوطالبؑ میں تعزیتی جلسہ
لکھنؤ04؍اکتوبر2023 حوزہ علمیہ ابوطالب ؑ میں جناب محمد امیر محمد خان راجہ صاحب محمود آباد کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا ۔جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سہیل عباس نے کہاکہ مرحوم راجہ محمود آباد سچے عاشق رسول و آل رسول تھے ۔ عزاداردی امام حسینؑ میںبڑے جو ش و خروش کے ساتھ شرکت کرتے تھے ۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سابق صدر نوید حامد نے بھی سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعہ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ نوید حامد نے ’ایکس‘ پر کیے گئے اپنے پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’راجہ محمود آباد جناب امیر محمد خان کی طویل علالت کے بعد انتقال کی خبر سن کر تکلیف ہوئی۔ وہ ایک دانشور شخصیت تھے جنھیں ان کی عاجزی اور انکساری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ علی خان اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے تئیں تعزیت۔‘‘
یونٹی کالج میں تعزیتی جلسہ
یونٹی کالج میں ایک تعزیتی جلسہ کالج کے سکریٹری سید نجم الحسن رضوی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کالج کے صدر راجہ محمد امیر محمد خان آف محمودآباد کے سانحہ ارتحال پر اظہار تعزیت کیا گیا۔ اس جلسہ میں توحید المسلمین ٹرسٹ،یونٹی کالج کے اسٹاف و کارکنان اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان نے شرکت کی۔
موصو ف فلاحی ادارہ توحیدالمسلمین ٹرسٹ سے منسلک تھے اور یونٹی کالج کے صدر کی حیثیت سے تا دمِ مرگ اپنی بیش بہا خدمات انجام دیتے رہے۔مرحوم ایک نیک دل، با فہم اور ہر دلعزیز شخص تھے جو اپنی بے باکی اور ایمانداری کے لئے جانے جاتے تھے۔کالج کے سکریٹری نجم الحسن رضوی نے مرحوم کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے مرحوم کے انتقال کو ایک نا قابلِ تلافی نقصان بتایا۔ انہوں نے کہا کہ راجہ صاحب کی شکل میں ان اداروں نے اپنا مربی و محسن کھو دیا۔جلسہ کے آخر میں مرحوم راجہ محمد امیر محمد خان آف محمودآباد کے ایصالِ ثواب کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھا گیا جس میں کالج کے دونوں شفٹ کے تمام اساتذہ ، طلبہ و طالبات توحیدالمسلمین ٹرسٹ کے ارکان اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان شامل ہوئے۔
راجہ محمود آباد کے انتقال پر جامعہ ناظمیہ میں جلسہ تعزیت
آج جامعہ ناظمیہ میں ایک تعزیتی جلسہ زیر صدارت مولانا سید فرید الحسن منعقد ہوا۔ صدر جلسہ نے راجہ صاحب کی شخصیت کے بارے میں تفصیل بیان کی۔ جلسہ میں ان کے خانوادہ خاص کر ان کے فرزند علی صاحب کی خدمت میں تعزیت پیش کی گئی اور دعا کی گئی کہ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔ اور مرحوم کو جوار معصومین ؑ میں جگہ عنایت فرمائے۔ مولانا سید حمید الحسن پرنسپل جامعہ ناظمیہ نے اپنے بیان میں مرحوم راجہ محمود آباد کو قوم کی عزت و وقار بلا ایک اہم نشانی بتایا۔ جلسے کا اختتام سورہ فاتحہ پر ہوا اور جامعہ میں تعطیل کر دی گئی۔
ملکیت کا تنازع 1962 سے چل رہا تھا۔
بھارت چین جنگ کے بعد مرکزی حکومت کی توجہ ان جائیدادوں کی طرف مبذول ہوئی جو ان لوگوں کی تھیں جو پاکستان چلے گئے تھے۔ ایسی جائیدادوں کے حوالے سے بنائے گئے ڈیفنس ایکٹ 1962 کے تحت حکومت نے ریاست محمود آباد کی جائیدادوں کو دشمن کی ملکیت قرار دے کر اپنے تحفظ میں لے لیا۔ سال 1973 میںامیر احمد کے بیٹے راجہ محمد عامر محمد خان نے ان جائیدادوں پر دعویٰ کیا۔
2010 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے اینیمی پراپرٹی ایکٹ میں ترمیم کی اور راجہ کی تمام جائیدادیں کسٹوڈین کے پاس چلی گئیں۔ 7 جنوری 2016 کو نیا آرڈیننس لایا گیا تو سپریم کورٹ نے دشمن کی جائیدادوں کی فروخت پر پابندی لگا دی۔
ایک ہمہ جہت باصلاحیت اور خوبیوں کے انسان تھے، انہوں نے ایک پاکیزہ زندگی گزاری، اور ایسے طرز عمل اور اقدار کی نمائش کی جو جدید دور میں ختم ہو رہی ہیں۔
ایک ادبی مہزب اور بین الاقوامی شہرت کے ماہر فلکیاتی ماہر، تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات یکساں طور پر بے مثال ہیں۔
راجہ صاحب کی تدفین محمود آباد میں واقع کربلا میں ایک بڑے سوگوار مجمع کی موجودگی میں ہوئی۔ تدفین سے قبل مسلمانون کے دو مسالک شیعہ اور سنی کے علما نے نماز جنازہ ادا کی۔