نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے متاثر کم از کم 20 فیصد افراد میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے پلوس میڈیسین میں شائع تحقیق میں مارچ سے جون کے دوران کی جانے والی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا جس میں معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کے شکار ہر 10 میں سے 2 افراد میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
سوئٹزر لینڈ کی برن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ 20 فیصد مریضوں میں علامات نہیں ہوتیں مگر وہ پھر بھی اس بیماری کو دیگر افراد تک منتقل کرسکتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں علامات نظر آئیں یا ظاہر نہ ہوں، وہ وائرس کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسے کچھ افراد میں علامات ہوتی ہیں مگر انہیں احساس نہیں ہوتا کہ کووڈ 19 کی علامات ہیں۔ہارورڈ میڈیکل اسکول کے پروفیسر ولیم اے ہیسلٹائن جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے بتایا کہ ایسے آثار ملے ہیں کہ بغیر علامات والے متعدد افراد میں یہ بیماری چھپی رہتی ہے، جو بیماری کے دوران اور اس کے بعد ان کی جسمانی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید کام کی ضرورت ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے زور دیا کہ علامات سے پاک کیسز اور بیماری کے پھیلاؤ کے خطرے کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ احتیاطی تدابیر جیسے ہاتھوں کی صفائی، سماجی دوری اور دیگر اقدامات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے متعدد مریضوں میں اکثر شروع میں علامات نہیں ہوتیں مگر بعد میں وہ ظاہر ہوجاتی ہیں۔اس سے قبل اگست میں جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے ایسے مریض جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اس وائرس کو اتنا زیادہ آگے پھیلا سکتے ہیں جتنا علامات والے مریض۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی تمام تر خصوصیات میں سب سے حیران کن خاصیت یہی ہے کہ بظاہر صحت مند افراد بھی اسے آگے تک پھیلا دیتے ہیں اور اسی وجہ سے اس کی روک تھام بہت مشکل جبکہ ایسے افراد کی شناخت اور الگ تھلگ کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔
اب تک بغیر علامات والے مریضوں کی جانب سے کورونا وائرس کو آگے پھیلانے کے حوالے سے شواہد مشاہداتی تھے۔
مگر جنوبی کوریا میں ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے کہ بغیر علامات والے مریضوں کی ناک، حلق اور پھیپھڑوں میں اتنا ہی وائرل لوڈ ہوتا ہے جتنا علامات والے مریضوں میں اور دونوں میں اس کادورانیہ بھی لگ بھگ ایک جتنا ہی ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں مریضوں میں جینیاتی مواد کی جانچ پڑتال کی گئی اور محققین کی جانب سے وائرس کی منتقلی کی چین یا زندہ وائرسز کی نشوونما کو نہیں دیکھا گیا۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ بغیر علامات والے مریض غیر دانستہ طور پر وائرس کو پھیلادیتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے 6 سے 26 مارچ کے دوران بغیر علامات والے 193 مریضوں اور 110 علامات والے مریضوں کے لیے گئے نمونوں کا تجزیہ کیا۔
ابتدائی طور پر 89 میں سے 30 فیصد کبھی بیمار نہیں ہوئے جبکہ 21 فیصد میں علامات نظر آئیں۔
تحقیق میں شامل بیشتر افراد نوجوان تھے اور اوسط عمر 25 سال تھی۔
تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ 30 فیصد متاثرہ افراد میں کبھی بھی علامات پیدا نہیں ہوتیں جو کہ دیگر تحقیقی رپورٹس کے نتائج سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔
جنوبی کورین تحقیق میں شامل افراد کو وائرس کی تشخیص کے ساتھ ہی الگ کردیاگیا تھا اور دیگر کو بیمار نہیں کرسکے تھے۔ڈاکٹروں اور نرسوں نے ان کے درجہ حرارت اور دیگر علامات پرنظر رکھی جبکہ بلغم کا تجزیہ کیا جس سے پھیپھڑوں، ناک اور حلق میں وائرس کی موجودگی کا عندیہ ملا۔
محققین کا کہنا تھا کہ دونوں گروپس میں وائرس کی مقدار بیماری کے مکمل دورانیے کے دوران ملتی جلتی تھی، بس بغیر علامات والے افراد 17 ویں دن وائرس سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے جبکہ علامات والے گروپ میں یہ اوسط 19 سے 20 دن تھی۔
دونوں میں یہ دورانیہ بیشتر ممالک میں قرنطینہ کے لیے طے کیے گئے دورانیے سے طویل تھا۔متعدد تحقیقی رپورٹس میں بھی یہ عندیہ دیا جاچکا ہے کہ متاثرہ افراد سے وائرس کے جھڑنے کا دورانیہ بمشکل ایک ہفتہ ہوتا ہے۔