خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں32 افراد شہید اور 147 زخمی ہوگئے جبکہ مزید اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سرکاری خبرایجنسی ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پشاور کی مسجد میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر سی) کے ترجمان محمد عاصم نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مسجد میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد 32 ہوگئی ہے اور 147 افراد کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
کمشنر پشاور ریاض محسود نے بھی اموات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کے اندر ریسیکیو آپریشن کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر سی) کے ترجمان محمد عاصم نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ علاقے کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور صرف ایمبولینس اور امدادی کاموں میں مصروف اہلکاروں کو علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور محمد اعجاز خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہوگئی، متعدد جوان اب بھی ملبے کے نیچے پھنسے ہوئے ہیں اور امدادی کاموں میں مصروف ورکرز انہیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے کی نوعیت سے متعلق ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، بارود کی بو آرہی ہے، تحقیققات جاری ہیں، جائزہ لینے کے بعد وجہ کی تصدیق ہوسکے گی۔
اعجاز خان نے کہا کہ دھماکے کے وقت وہاں 300 سے 400 کے درمیان پولیس اہلکار موجود تھے، سی سی پی او نے کہا کہ بظاہر ہے یہ ہی لگتا ہے کہ کہیں سیکورٹی میں کوتاہی ہوئی۔
سینئر عہدیدار نے بتایا کہ شہر بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں جب کہ انتظامیہ کی جانب سے شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کام جاری ہے، میری خاص کر پشاور کے عوام سے اپیل ہے کہ ہسپتال میں جا کر خون کے عطیات دیں۔
سابق وزیراعلیٰ محمد خان نے بھی پشاور اور ملحقہ علاقوں میں موجود پی ٹی آئی کے کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ ایل آر ایچ پہنچیں اور زخمیوں کو خون کے عطیات دیں۔
اطلاعات کے مطابق دھماکا تقریباً ایک بج کر 40 منٹ پر اس وقت ہوا جب ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی، دھماکا شدید نوعیت کا تھا جس کے باعث مسجد کی چھت اور دیوار منہدم ہوگئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو پولیس حکام نے بتایا کہ دھماکا مسجد میں اس وقت ہوا جب بڑی تعداد میں افراد نماز ادا کر رہے تھے۔
دھماکا پشاور کے ریڈ زون میں ہوا جہاں گورنر ہاؤس سمیت اہم سرکاری عمارتیں اور دفاتر موجود ہیں۔
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا جب کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
اظہار مذمت
وزیراعظم شہبازشریف نے پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں خود کش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔
وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان میں وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ تعالی کے حضور سربسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے، اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گرد پاکستان کے دفاع کا فرض نبھانے والوں کو نشانہ بنا کر خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری قوم اور ادارے یکسو اور متحد ہیں،پوری قوم اپنے شہدا کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر جامع حکمت عملی اپنائیں گے، وفاق صوبوں کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت بڑھانے میں تعاون کرے گا۔
وزیراعظم نے وفاقی وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی صلاحیت بڑھانے میں مدد فراہم کریں۔
ورنر خیبرپختونخوا غلام حاجی علی نے کہا کہ پولیس پر ہونے والے حملے میں ابھی تک 28 جوان شہید ہوگئے ہیں جبکہ 150 کے قریب زخمی ہیں۔
پشاور میں پولیس اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملے سے متعلق بات کرتے ہوئے گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور بحیثیت مسلمان مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران ہونے والے حملی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
گورنر غلام علی نے کہا کہ اب تک ہمارے 28 جوان شہید ہوچکے ہیں جبکہ 150 کے قریب زخمی ہیں، متعدد اہلکار ابھی تک ملبے کے نیچے ہیں جن کو ریسکیو کیا جا رہا ہے۔
گورنر غلام علی نے پشاور کے شہریوں سے درخواست کی کہ ہسپتال پہنچ کر خون کا عطیہ دیں جو کہ صوبے کی پولیس پر احسان ہوگا اور امید ہے کہ پشاور کے نوجوان خون دینے کے لیے ہسپتال پہنچیں گے۔
وزیر دفاع خواجہ آصٓف نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث دہشت گردوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں، ان کا دین سے کیا تعلق ہے؟ دہشت گرد مسجد کی پہلی صف پر کھڑا تھا، افغانسان کی نئی حکومت کے بعد دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا، اس حوالے سے حکومت اقدامات کررہی ہے۔
نجی نیوز چینل ’جیو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ نماز کے وقت کسی کو روکا نہیں جاسکتا، ناحق خون بہایا جائے اور نمازیوں کا خون بہایا جائے تو ہمارے مذہب کا چہرہ مسک ہوتا ہے، دنیا کیا سوچے گی ہم اپنی آبادی میں دہشت گردی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کا شکار مسلمان مملک ہوئے ہیں، اس قسم کے واقعات ہمارے دین، اسلامی دنیا کوبدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا، ساتھ میں شہریوں کو بھی نقصان ہوا، گزشتہ چند سالوں میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، صوبے میں امن کو بحال کیاجائے گا، خوش آئند بات ہے کہ سوات، باجوڑ میں اس کے خلاف باہر نکلے ہیں، ابھی تک میرے علم میں نہیں کہ کسی نے واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، ہم چاہتے ہیں افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو لیکن طالبان ہیں ملک کا امن تباہ کرنے کے لیے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہیں گے کہ افغانستان اور پاکستان مل کر پوری قوت کے ساتھ دہشت گرد ختم کریں، اس میں دونوں مملک کا فائدہ ہے ورنہ سب لوگ آگ کی لپیت میں آجائے گے۔
وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی اور عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں، دہشتگردوں ،ان کے سرپرستوں اورسہولت کاروں کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ہی دہشتگردوں کا علاج ہے اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا، پیپلزپارٹی کے کارکن اور عہدے دار خون کے عطیات دیکر زخمیوں کی جان بچائیں۔
وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ پر دل غمزدہ ہے، انہوں نےجاں بحق اور زخمیوں ہونے والوں کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا اوراللہ تعالیٰ سے شہداکے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی ۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پولیس لائن پشاور کی مسجد میں دورانِ نماز دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کےساتھ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے لازم ہےکہ ہم اپنی انٹیلی جنس میں بہتری لائیں اور اپنی پولیس کومناسب انداز میں ضروری ساز و سامان سےلیس کریں۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی ہائی الرٹ
پشاور میں دھماکے کے بعد اسلام آباد پولیس نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے دارالحکومت میں ’سیکیورٹی ہائی الرٹ‘ رکھنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ بڑھا دی گئی ہے، سیف سٹی کے ذریعے مانیٹرنگ کی جارہی ہے، اہم ناکہ جات اور عمارتوں پر اسنائپرز تعینات کر دیے گئے ہیں، اسلام آباد کیپیٹل پولیس تھرمل امیجنگ کی صلاحیت سے لیس ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شہری دوران سفر اپنے شناختی دستاویزات ہمراہ رکھیں، شہری دوران چیکنگ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔
نوٹ: یہ ابتدائی خبر ہے جس میں تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو ملنے والی ابتدائی معلومات درست نہیں ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہماری کوشش ہے کہ ہم متعلقہ اداروں، حکام اور اپنے رپورٹرز سے بات کرکے باوثوق معلومات آپ تک پہنچائیں۔