حکام کے مطابق پشاور میں ایگری کلچر یونیورسٹی ڈائریکٹوریٹ میں حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں جبکہ جوابی کارروائی میں تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ڈی ایس پی بشیر داد نے بی بی سی کو بتایا کہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں چھ افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں جن میں ایک چوکیدار ہے جب کہ پانچ طالب علموں کی لاشیں شامل ہیں۔
آئی جی خیبرپختونخوا صلاح الدین محسود نے میڈیا کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ‘تین حملہ آور برقعے پہن کر رکشے میں بیٹھ کر آئے تھے۔
‘تین سے پانچ منٹ کے اندر اندر پولیس کی گاڑیاں جائے واردات پر پہنچ چکی تھیں اور سکیورٹی فورسز نے آپریشن شروع کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ الیٹ فورسز کے دستے بھی پہنچ گئے جب کہ کچھ دیر میں فوج کے جوان بھی آ گئے اور مشترکہ آپریشن شروع ہو گیا۔
انھوں نے کہا کہ یہاں دو ہاسٹل تھے، سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو ایک ہاسٹل تک محدود کر دیا اور دوسرے تک نہیں پہنچنے دیا۔ ورنہ ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔’
آئی جی صلاح الدین محسود نے بتایا کہ اس حملے میں چھ طلبہ، ایک چوکیدار اور چند سویلین ہلاک ہوئے ہیں، جن کی شناخت کی جا رہی ہے۔
‘دہشت گردوں کے پاس سے بھاری تعداد میں اسلحہ ملا ہے، جس میں کلاشن کوفیں، ہینڈ گرینیڈ اور خودکش جیکٹیں شامل ہیں۔’
حملے کے مقام کے قریب واقع خیبر ٹیچنگ ہاسپیٹل کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں تین لاشیں لائی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ طلبہ کی لاشیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس ہسپتال میں 14 زخمی بھی لائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمی ہونے والے آٹھ طالب علم جان بچانے کے لیے چھت سے چھلانگ لگا کر زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کا کہنا ہے کہ پشاور میں ایگری کلچر یونیورسٹی ڈائریکٹوریٹ میں حملے کے بعد پاکستانی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ہے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد تین سے چار تھی۔
بیان کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ رک گیا ہے اور علاقے کی فضائی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس وقت کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔
ہاسٹل سے آٹھ طالب علموں کو بھی بحفاظت نکالا گیا ہے۔
ایک عینی شاہد، جو وہاں طالب علم ہیں، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں تھے کہ اچانک باہر سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ حملہ آوروں طلبہ کے کمروں میں جا جا کر انھیں گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے اپنا دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ حملہ آوروں نے ہمارا دروازہ کھولنے کے لیے زور لگایا مگر ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے پولیس کو فون کیا اور دوسری تیسری کال کے بعد پولیس وہاں آ گئی، جس کے بعد ہمیں وہاں سے نکلنے کا موقع مل گیا۔‘
پولیس نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ کو بتایا کہ تین برقع پوش افراد رکشے میں بیٹھ کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے جس کے تھوڑی دیر یونیورسٹی کے اندر فائرنگ شروع ہو گئی۔
خیبر ٹیچنگ ہستپال کے ڈاکٹروں کے مطابق ہسپتال میں کم از کم چھ زخمیوں کو لایا گیا جبکہ دو زخمی فوجی جوانوں کو سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ اس حملے میں نجی وی سے وابستہ ایک صحافی بھی زخمی ہوئے ہیں۔
حملے کے بعد یونیورسٹی روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا، علاقے میں فوج طلب کر لی گئی اور سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ پشاور یونیورسٹی کے سامنے اور خیبر ٹیچنگ ہسپتال سے ملحق ہے۔ یہ ایک تربیتی ادارہ ہے اور یہاں جمعے کو عید میلاد النبی کی وجہ سے چھٹی تھی۔