جمعرات کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات پیرا ملٹری پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حملے میں کم ازکم 44 اہلکار ہلاک ہو گئے۔ سنہ 1989 کے بعد انڈین فورسز پر کشمیر میں ہونے والا یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق شدت پسند گروپ جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
جیش محمد کا تاریخی پس منظر
مولانا مسعود اظہر کی قیادت میں قائم ہونے والی جنگجو تنظیم جیش محمد کے قیام کی کہانی مختصر لیکن ہنگامہ خیز ہے۔
دسمبر 1999 میں بھارتی مسافر طیارے کے اغواء کے نتیجے میں عمر سعید شیخ اور مشتاق زرگر کے ہمراہ کشمیر کی جیل سے رہائی کے فوری بعد مولانا مسعود اظہر نے راولپنڈی میں حرکت المجاہدین کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل سے ملاقات کی جس میں تنظیمی امور پر بات چیت کی گئی۔
حرکت کے قریبی حلقوں کے مطابق یہ ملاقات اس حوالے سے کوئی زیادہ خوشگوار نہیں کہی جا سکتی کیونکہ مولانا مسعود اظہر نے تنظیم میں بڑی ذمہ داری کا مطالبہ کیا جب کہ مولانا فضل الرحمان خلیل نے انہیں کچھ عرصے کے لیے خاموش رہنے کا مشورہ دیا اور اس طرح معاملات طے نہ پا سکے۔
مولانا مسعود اظہر نے کچھ ہی دنوں کے بعد جنوری 2000 میں کراچی میں پہلی ریلی کے دوران جیش محمد کے قیام کا اعلان کر دیا۔
اکتوبر 2001 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی کی عمارت پر خود کش حملے میں 30 لوگ مارے گئے اور اس کی ذمہ داری جیش محمد پر عائد کی گئی۔
دسمبر 2001 میں دلی میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ ہو یا 2002 کے اوائل میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا قتل، جیش محمد کے نام کی باز گشت ہر اہم واقعے کے ساتھ سنی گئی۔
ڈینئل پرل کے قتل میں القاعدہ کے اہم رہنما خالد شیخ محمد کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد جیش اور القاعدہ کے درمیان روابط کا پتہ دیتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور برطانیہ نے بھی بہت جلد جیش کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے بھی جنوری 2002 میں جیش کو خلاف قانون قرار دے کر پابندیاں عائد کر دیں اور مولانا مسعود اظہر کو نظر بند کر دیا گیا۔
لیکن ان کی قیادت میں تنظیم ’خادم الاسلام‘ کے نام سے کام کرنے لگی، جب کہ جیش محمد کا ایک اور دھڑا مبینہ طور پر جماعت ’الفرقان‘ کے نام سے مولانا عبدالجبار کی قیادت میں متحرک ہو گیا۔
2003 میں ان دونوں تنظیموں کو بھی مشرف حکومت نے خلاف قانون قرار دے دیا لیکن ان کی سرگرمیوں میں عملی رکاوٹ نہ ڈالی جا سکی۔
دسمبر 2003 میں مولانا عبدالجبار کو صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے معاملے میں حراست میں لیا گیا لیکن دو ہزار چار میں رہا کر دیا گیا۔
مسعود اظہر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں مقیم ہیں۔ انڈیا نے کئی بار پاکستان سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے تاہم پاکستان ان کے خلاف شواہد کی عدم موجودگی کے باعث انکار کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جیش محمد کو ’دہشت گرد‘ تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد انڈیا کئی مرتبہ مسعود اظہر کو بھی عالمی دہشت گرد کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کر چکا ہے، لیکن پاکستان کے قریبی اتحادی چین نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔
حملے کے بعد جاری کی گئی ویڈیو
مبینہ طور پر پلوامہ حملے کے کچھ دیر بعد جیش محمد کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ حملے سے پہلے بنائی گئی تھی۔ اس ویڈیو کو انڈین ٹی وی چینل ’انڈیا ٹو ڈے‘ پر نشر بھی کیا گیا ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں مبینہ حملہ آور، عادل ڈار نامی ایک نوجوان کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کے بارے میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ویڈیو میں اس مبینہ حملہ آور کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ سال اس کالعدم تنظیم کا حصہ بنے جس کے بعد انہیں اس حملے کے ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے تک وہ ’جنت میں پہنچ چکے‘ ہوں گے۔
دسمبر2017 میں مبینہ طور پر اسی گروپ کی جانب سے جاری کی گئی ایک اور ویڈیو میں 16 سالہ نوجوان فریدین احمد کھانڈے نے اس تاثر کو مسترد کیا تھا کہ جیش محمد گروپ کا کشمیر وادی سے صفایا ہو چکا ہے۔
انہوں نے اپنی ویڈیو میں کہا تھا کہ ‘انڈین سکیورٹی اہلکاروں اور ایجنسیوں کی جانب سے بار بار کیے جانے والے دعوؤں کے باوجود جیش محمد کا وادی کشمیر سے خاتمہ نہیں ہوسکا۔ جیش اتنی کمزور نہیں۔ جیش محمد کو روکنا ناممکن ہے۔ ہم گرج رہے ہیں`۔