پاپائے روم پوپ فرانسس کی جانب سے کونسل برائے بین المذاہب مکالمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ماہِ رمضان اور عیدالفطر کے موقع پر نیک خواہشات کا خصوصی پیغام پیش کیا ہے۔ اس خصوصی پیغام میں کہا گیا ہے کہ؛
پیارے مسلمان بھائیو اور بہنو!
ایک بار پھر ہم ماہِ رمضان کے موقع پر آپ کو قُربت اور دوستی کے پیغام کے ساتھ مُبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہم آپ کے رُوحانی سفر اور آپ کی خاندانی اور سماجی زندگی کے لیے اس مہینے کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔
ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ رمضان المبارک کے دوران آپ کے لیے ہمارا سالانہ پیغام مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات کو مضبوط بنانے اور اُستوار کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ روایتی اور جدید ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے اس پیغام کو دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں بہتر طور پر جاننا اور پہچاننا فائدہ مند ہوگا۔
ہم آپ کے ساتھ قدرے ایک مختلف خیال اور موضوع پرغور و فکر کرنا چاہتے ہیں جسے ہم نے حل کرنے کے نقطہ نظر سے منتخب کیا ہے۔ اِن دنوں تنازعات کی بڑھتی ہوئی تعداد، جس میں فوجی لڑائی سے لے کر ریاستوں، جرائم پیشہ تنظیموں، مسلح گروہوں اور عام شہریوں کے درمیان مختلف شدت کے مسلح تصادم تک شامل ہیں، واقعی تشویش ناک ہو گئے ہیں۔ پوپ فرانسس نے حال ہی میں مشاہدہ کیا ہے کہ دُشمنی میں یہ اضافہ درحقیقت ‘تیسری عالمی جنگ لڑی گئی’ کو ‘ایک حقیقی عالمی تنازع’ میں تبدیل کر رہا ہے۔
ان تنازعات کی وجوہات بہت سی ہیں، کچھ دیرینہ ہیں اور کچھ زیادہ حالیہ ہیں۔ تسلُط، جغرافیائی سیاسی عزائم اور اقتصادی مفادات کی انسانی خواہش کے ساتھ ساتھ، ایک بڑا سبب یقیناً اسلحے کی مسلسل پیداوار اور تجارت ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے انسانی خاندان کے ایک حصے کو جنگ میں ان ہتھیاروں کے استعمال کے تباہ کن اثرات سے شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پوپ فرانسس نے اسے اپنے بھائی کے خون میں روٹی کا ایک ٹکڑا ڈبونے کے مترادف قرار دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، ہم شکر گزار ہیں کہ ہمارے پاس امن کو آگے بڑھانے کے لیے بے پناہ انسانی اور مذہبی وسائل بھی ہیں۔ امن و سلامتی کی خواہش ہر نیک نیت انسان کی روح میں گہرائی سے پیوست ہے، کیونکہ جنگ کے المناک اثرات انسانی جانوں کے ضیاع، شدید زخمیوں اور یتیموں اور بیواؤں کے ہجوم کو دیکھنے سے کوئی بھی محروم نہیں رہ سکتا۔ انفراسٹرکچر اور املاک کی تباہی زندگی کو اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات لاکھوں لوگ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو جاتے ہیں یا پناہ گزینوں کے طور پر دوسرے ملکوں میں بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
نتیجتاً، جنگ کی مذمت اور اسے رد کرنا غیر مبہم ہونا چاہیے؛ ہر جنگ قتل و غارت کو بڑھاتی، بے فائدہ اور تاریک ہوتی ہے۔ جنگ میں سب ہار جاتے ہیں۔ ایک بار پھر، پوپ فرانسس کے الفاظ میں؛ ‘کوئی جنگ مقدس نہیں ہے، صرف امن ہی مقدس ہے’۔
تمام مذاہب اپنے اپنے طریقے سے انسانی زندگی کو مقدس اور اسی طرح احترام اور تحفظ کے لائق سمجھتے ہیں۔ وہ ریاستیں جو سزائے موت کی اجازت دیتی اور اس پر عمل کرتی ہیں، خوش قسمتی سے ہر سال کم ہوتی جا رہی ہیں۔ زندگی کے تحفے کے اس بنیادی وقار کے احترام کا دوبارہ بیدار ہونے والا احساس اس یقین میں حصہ ڈالے گا کہ جنگ کو مسترد کیا جانا چاہیے اور امن کو پسند کیا جانا چاہیے۔
اپنے اختلافات کے باوجود، مذاہب وجود اور ضمیر کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی، اس کی جسمانی سالمیت، تحفظ اور باوقار زندگی کے حق کا احترام کسی بھی جنگ کو مسترد کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم اپنے پروردگار کو امن کے خدا کے طور پر دیکھتے ہیں۔ امن کا سرچشمہ، جو ایک خاص انداز میں ان تمام لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنی زندگی امن کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں۔ بہت سی چیزوں کی طرح امن ایک الہٰی تحفہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انسانی کوششوں کا پھل ہے۔
ہم امید کے گواہ ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنے 2021 کے رمضان کے پیغام میں کہا کہ ‘مسیحی اور مسلمان: امید کے گواہ’۔ امید کی علامت موم بتی سے کی جا سکتی ہے، جس کی روشنی سلامتی اور خوشی پھیلاتی ہے، جبکہ آگ، بے قابو، حیوانات اور نباتات، بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔
پیارے مسلمان بھائیو اور بہنو!
آئیے ہم نفرت، تشدد اور جنگ کی آگ کو بجھانے میں شامل ہوں۔ جنگ کی بجائے امن کی شمع کو روشن کریں، امن کے لیے ان وسائل کی طرف متوجہ ہوں جو ہماری بھرپور انسانی اور مذہبی روایات میں موجود ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران آپ کے روزے اور دیگر نیک اعمال اور عیدالفطر کا جشن آپ کے لیے امن، امید اور خوشی کے وافر پھل لائے۔