متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے کیتھولک چرچ کے پہلے سربراہ پوپ فرانسس نے ابوظہبی کے اسٹیڈیم میں ایک لاکھ 70 ہزار کیتھولک افراد سے تاریخی خطاب کیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کے مطابق پوپ فرانسس نے زید اسپورٹس سٹی اسٹیڈیم میں داخل ہوتے ہی ویٹیکن کے جھنڈے لہراتے ہوئے ایک ایسے ملک میں پُرجوش ہجوم کی جانب ہاتھ ہلایا جہاں مسیحی افراد کو عام طور پر صرف گرجا گھر میں ہی عبادت کی اجازت ہے۔
پوپ فرانسس بین المذاہب ہم آہنگی کے تحت متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورے پر ہیں۔
صبح 10 بجے پوپ فرانسس کی آمد کے فورا بعد ایک شخص نے عربی میں کہا کہ ’ اس کھلے آسمان تلے اپنے بھائیوں کے ساتھ موجود ہونا کتنا خوبصورت ہے‘۔
اسٹیڈیم میں 50 ہزار کیتھولک افراد نے پوپ فرانسس کو خوش آمدید کہا، وہیں ہجوم میں شریک ایک چھوٹے ہجوم نے پوسٹر کارڈ کے ذریعے استقبال کیا، جس پر لکھا تھا ’ہم یمن کے کیتھولک آپ سے محبت کرتے ہیں‘۔
اس کے ساتھ ہی ایک لاکھ 20 ہزار افراد باہر موجود تھے جنہوں نے بڑی اسکرین پر ویڈیو لنک کے ذریعے پوپ فرانسس کا خطاب دیکھا۔
پوپ فرانسس کی آمد کے بعد مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پادریوں نے مذہبی رسومات کا آغاز کیا جسے اماراتی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا گیا۔
تارکین وطن کیتھولک
متحدہ عرب امارات (یو ای اے ) نے ’ رواداری کے سال 2019‘ کے تحت پوپ فرانسس کو دورے کی دعوت دی تھی۔
وزیر برائے رواداری شیخ نہیان بن مبارک نے اسٹیڈیم میں پوپ کی آمد سے قبل ہجوم میں شریک افراد کا استقبال کیا۔
متحدہ عرب امارات کی تارکین وطن مزدوروں میں شریک فلپائنی اور بھارتی کیتھولک کی جانب سے پوپ فرانسس کے دورے کا پرجوش خیرمقدم کیا گیا ہے۔
ایشیائی افراد آبادی کا 65 فیصد حصہ ہیں جو خلیجی ریاست میں تقریباً ہر شعبے میں موجود ہیں۔
اطالوی تارکین وطن کے بیٹے جارج برگوگیلو یا پوپ فرانسس جنہوں نے ارجنٹائن میں پرورش پائی،انہوں نے اپنے دور میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو خصوصی اہمیت دی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی 85 فیصد آبادی بیرون ملک سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، یہاں 10 لاکھ کیتھولک بھی رہائش پذیر ہیں جو یو ای اے کی کُل آبادی کا 10 فیصد حصہ ہیں۔
یمن جنگ
آج کے اجتماع سے قبل گزشتہ روز پوپ فرانسس نے ابو ظہبی میں قاہرہ کی جامعہ الازہر کے سربراہ شیخ احمد الطیب سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے یمن اور شام میں جاری جنگ پر سخت تحفطات کا اظہار کیا تھا۔
گزشتہ روز کیے گئے بین المذاہب خطاب میں انہوں نے یمن سمیت خطے میں جاری جنگوں کا خاتمہ، انصاف اور شہریوں کو برابری کی بنیاد پر حقوق کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے تمام مذہبی رہنماؤں سے کہا کہ ‘لفظ جنگ کو منظوری دینے والے ہر پہلو کو مسترد کرنا ان کا فرض ہے’۔
پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ ‘میں خاص کر یمن، شام، عراق اور لیبیا کے بارے میں سوچ رہا ہوں’۔
دونوں مذہبی رہنماؤں نے ’عالمی امن کے لیے بھائی چارے ‘ کے دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے اسے ’ عیسائیوں اور مسلمانوں کےدرمیان مزاکرات میں ایک اہم اقدام قرار دیا‘۔
خیال رہے کہ یمن میں سعودی اتحادی کی جانب سے 2015 میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کی گئی تھی جہاں اب تک ایک اندازے کے مطابق لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے متعدد مرتبہ خبردار کیا ہے کہ یمن میں جاری خانہ جنگی سے انسانی بحران جنم پانے کا خدشہ ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائی کی ضرورت ہے۔