میرے خیال میں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں صحت مند افراد کو بھی زندگی کے بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور یہ بات بھی سچ ہے کہ جس معاشرے میں عام اور نارمل شخص کو بنیادی حقوق حاصل نہ ہوں تو پھر ایسے معاشرے میں مکمل طور پر صحت سے محروم افراد کو کیسے حقوق دیے جائیں گے؟
سماجی رویوں میں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ اگر سر راہ کوئی مر بھی رہا ہو تو لوگ اپنا دامن بچاتے گزرتے چلے جاتے ہیں، مدد کے لیے آگے آنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کہیں پولیس و دیگر ادارے ان کے خلاف کیس ہی نہ بنادیں، ایسے احساس سے محروم انسانی معاشرے میں کسی جسمانی کمی یا معذوری کا شکار افراد صبح سے شام تک کن تکلیفوں سے گزرتے ہیں، وہ تعلیم سے روزگار اور ضروریات زندگی کے حصول کے لیے روزانہ کن مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور سر راہ یا گھر والوں کے تکلیف دہ رویوں سے ان کی روح کتنی مرتبہ زخمی ہوتی ہے اس کا ادراک وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ان حالات سے گزرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے برعکس مغربی معاشرے میں معذور افراد کو نہ صرف ایک با عزت مقام حاصل ہے بلکہ سیاست سے سائنس اور تحقیق تک ہر جگہ انہیں مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کر سکیں، یہی وجہ ہے کہ صرف امریکا میں اندازے کے مطابق 5 لاکھ معذور افراد سائنس کی مختلف شاخوں میں تحقیق کے پیشے سے وابستہ ہیں اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ متعدد عام اور چھوٹی ذہنی و جسمانی بیماریوں کی کچھ اقسام کو دنیا بھر میں اب معذوری میں شمار کیے جانے سے معذور افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا جیسے ملک میں سائنس کے شعبے میں بھی معذور افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
اگرچہ سائنس میں تحقیق ایک مشکل پیشہ ہے اور امریکا و یورپ میں بھی سائنس یا تحقیق سے متعلق منصوبوں کی پلاننگ اور تیاری میں معذور افراد کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں جسمانی کمی کے شکار یہ افراد اپنی صلاحیتوں سے ثابت کر رہے ہیں کہ ‘ان میں کچھ کمی ضرور ہے مگر وہ نہ تو مجبور ہیں اور نہ ہی کسی پر بوجھ ہیں’ بلکہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ان افراد کی معذوری انہیں عام ڈگر سے ہٹ کر سوچنے کی طرف مائل کرتی ہے جس سے سائنسی تحقیق میں نئے دروازے کھلتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
آئیے ‘معذور افراد کے عالمی دن’ کے موقع پر آپ کو ایسے ہی چند مایہ ناز سائنسدانوں سے ملواتے ہیں جو نہ صرف دنیا بھر میں تحقیق کی نئی راہیں بنانے کا سبب بننے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے ایک نمونہ ہیں کہ اگر انسان چاہے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔
اسٹیفن ہاکنگ- 8 جنوری 1942 تا 14 مارچ 2018
اسٹیفن ہاکنگ کو 20 ویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان کہا جاتا ہے جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ نہ صرف ایک بہترین سائنسدان، محقق اور مصنف تھے بلکہ ان کی ہمت اور متاثر کن شخصیت ہر کسی کو اپنے سحر میں جکڑنے کے لیے کافی تھی۔
یہ عظیم ماہر طبیعات بچپن ہی سے مختلف طرح کی بیماریوں کا شکار تھے اور ساتھ ہی ان میں خود اعتمادی کی شدید کمی تھی، 21 برس کی عمر میں جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو ان پر انکشاف ہوا کہ وہ موٹر نیوران نامی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں جس سے جسم کے اعصاب آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتے ہیں اور اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کے پاس جینے کے لیے محض 2 یا 3 سال تھے جس میں وہ اپنا پی ایچ ڈی بھی بمشکل مکمل کر پاتے مگر وقت نے دیکھا کہ تمام پیش گوئیوں کے برعکس ہاکنگ 55 برس مزید زندہ رہے اور دیگر معذور افراد کی طرح لوگوں کے تکلیف دہ رویوں پر آنسو بہانے کے بجائے وہ ساری دنیا کے لیے مشعل راہ بن گئے۔
ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ سارا دن اپنے گھر کے لاؤنچ میں وہیل چیئر پر بیٹھے آسمان کو خالی نظروں سے تکا کرتے تھے کیونکہ ان کے پاس دنیا سے رابطے کا کوئی بھی ذریعہ نہیں رہا تھا مگر وہ وقت اور حالات سے ہار ماننے پر تیار نہیں تھے۔
اس کڑے وقت میں اسٹیفن ہاکنگ کا سب سے زیادہ ساتھ ان کی پہلی بیوی جین ہاکنگ نے دیا، کیل ٹیک میں کام کرنے والے چند انجینئرز نے ان کے لیے ایک خاص وہیل چیئر تیار کی جس میں مکمل کمپیوٹر سسٹم کے ساتھ آواز کے لیے اسپیچ سائنتھسائزر بھی لگا ہوا تھا، اس سے جو آواز پیدا ہوتی وہ ہاکنگ کی آواز کے بلکل مشابہہ نہیں تھی مگر اس سے ملتی جلتی ضرور تھی۔
ہمیں اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ہاکنگ کو ان کی تحقیقات اور کتابوں کے بجائے زیادہ شہرت ان کی معذوری کی وجہ سے حاصل ہوئی مگر ان پر تنقید کرنے والے انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اپنے وطن میں نہ جانے کتنے اسٹیفن ہاکنگ زمانے کی بے حسی کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اور ان کی مخفی صلاحیتوں سے ان کے گھر کے افراد تک لا علم رہتے ہیں۔
شاید ایسی ہی منفی سوچ کے حامل افراد کے لیے اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ ہر مشہور شخصیت کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے اور میری پہچان میری وہیل چیئر ہے۔
تھامس ایڈیسن – 11 فروری 1847 تا 18 اکتوبر 1931
تھامس ایلوا ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات بھی کہا جاتا ہے، اس عظیم سائنسدان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، آمدن کے ذرائع محدود تھے جس کے ساتھ تھامس اور ان کے 8 بہن بھائیوں کی پرورش مشکل تھی، اس کے باوجود ایڈیسن کی والدہ جو خود ایک اسکول میں استانی تھیں انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔
7 یا 8 برس کی عمر میں ایڈیسن کو تیز بخار ہوا جس سے ان کے دونوں کانوں کی سماعت متاثر ہوئی اور چند برس میں وہ کچھ بھی سننے کے قابل نہیں رہے، ایڈیسن کو بچپن سے تجربات کا بہت شوق تھا اور اس لیے انہوں نے ایک ریل گاڑی کے ڈبے میں اپنی تجربہ گاہ بنائی ہوئی تھی۔
تاریخی حوالہ جات کے مطابق ایک دفعہ کسی کیمیکل پر تجربہ کرتے ہوئے ڈبے میں دھماکے سے آگ بھڑک اٹھی جس پر ڈبے کے مالک نے انہیں زدو کوب کیا، کان پر پڑنے والی چوٹ سے ایڈیسن کی باقی سماعت بھی ختم ہوگئی، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور پھر آگے چل کے ایڈیسن ٹیلی گراف کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور انہیں ٹیلی گراف سسٹم کو سمجھنے کا موقع ملا۔
بچپن سے حادثات کے شکار اس باہمت بچے نے ترقی کا سفر جاری رکھا اور آج اس کا شمار انیسویں صدی کے بہترین موجد میں ہوتا ہے، بلب سے لے کر جدید مواصلاتی نظام تک ایسی بے شمار ایجادات کا سہرا ایڈیسن کے سر ہے جن کی بدولت آج ہمیں بہترین مواصلاتی ذرائع حاصل ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلب ایڈیسن کی ایجاد نہیں تھا بلکہ انہوں نے ہمفرے ڈیوی کے خیالات اور آئیڈیا سے متاثر ہو کر پہلا بلب ایجاد کیا جسے آج ہم زرد بلب کے نام سے جانتے ہیں، ساتھ ہی دیگر کئی محققین کی طرح ایڈیسن بھی ہر دور میں لعن طعن کا شکار رہے ہیں۔
آئن سٹائن – 14 مارچ 1879 تا 18 اپریل 1955
اسٹیفن ہاکنگ کی طرح آئن اسٹائن بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں جنہیں ہر دور کا ذہین ترین انسان قرار دیا جا چکا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں آئن اسٹائن نے دنیائے فزکس اور فلکیات میں جو قوانین پیش کیے ان کی آج جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تصدیق ہو رہی ہے مگر ہم میں سے بہت سے افراد یہ نہیں جانتے کہ آئن اسٹائن کے بارے میں ان کی اپنی فیملی کا خیال یہ تھا کہ یہ بچہ شاید ہی تعلیم حاصل کر سکے، کیوں کہ عام بچوں کے برعکس آئن اسٹائن نے 3 برس کے بعد بولنا
شروع کیا جسے سمجھنے میں کافی دقت ہوتی تھی، اس کے ساتھ ہی وہ باتوں کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا تھا اسکول میں اسی وجہ سے اسے اساتذہ کے تکلیف دہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کا دھیان کلاس کے بجائے کہیں اور ہوتا تھا۔
دراصل آئن اسٹائن کتابوں میں لکھے گئے سبق کو دیگر بچوں کی طرح سطحی طور پر سمجھنے یا رٹنے کے بجائے ان کی بنیاد کو سمجھنا چاہتا تھے، آئن اسٹائن کے اساتذہ اس کی ذہنی سطح کو سمجھنے کے بجائے اس کے والد کو شکایت بھیج دیا کرتے تھے مگر پھر وقت نے ثابت کیا کہ اصل مسئلہ آئن اسٹائن کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ان کے اساتذہ اور فرسودہ تعلیمی نظام کے ساتھ تھا جو بچوں کو تحقیق کے بجائے محض کتابیں رٹوانے پر اکساتا ہے۔