پیرس میں الجزائر انٹرنیشنل اسکول میں ایک طالبہ کو صحن میں نماز پڑھنے کے سبب ایک ہفتے کلاس سے باہر کر دینے کے واقعے کے حوالے سے الجزائر کی خاتون وزیر تعلیم نوریہ بن غبریت کا بیان ابھی تک زیر بحث ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا، سیاسی حلقوں اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے شدید ردود عمل سامنے آ رہے ہیں۔
وزیر تعلیم نوریہ بن غبریت نے جمعرات کے روز پارلیمنٹ میں کہا کہ نماز کی جگہ مساجد ہیں۔
نماز کے حوالے سے متنازع بیان دینے کے بعد نوریہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ الجزائر کی شناخت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں جب کہ نوریہ کا کہنا ہے کہ فرانسیسی سامراج 132 برس بعد بھی ملک کی شناخت کو ضرر نہیں پہنچا سکا۔ انہوں نے زور دیا کہ اہم چیز تعلیمی کلینڈر اور ٹائم ٹیبل کا احترام ہے۔ نوریہ کے مطابق مساجد میں نماز کی فضا اور ماحول ہوتا ہے۔
ادھر موومنٹ آف سوسائٹی فار پیس کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ احمد صادوق نے تحریری طور پر خاتون وزیر تعلیم سے سوال کیا ہے کہ “سرکاری حکومت کے فیصلہ نمبر 778 کی 21 ویں شق کے تحت اداروں میں نماز کی جگہ مختص کیوں نہیں کی جاتی ہے۔ مذکورہ شق کے متن میں ہے کہ تعلیمی اداروں میں نماز کے لیے خصوصی ہال بنایا جائے گا تا کہ طلبہ صحن میں نماز ادا کرنے پر مجبور نہ ہوں”۔
موومنٹ آف سوسائٹی فار پیس نے نے ایک بیان میں خاتون وزیر تعلیم کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ “نوریہ بن غبریت نے انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بنیادی اصول کے منافی حرکت کی ہے اور یہ نماز پڑھنے والے طلبہ کے خلاف بڑی دلیری ہے”۔
دوسری جانب الجزائر کے اخبار البلاد نے پیرس میں الجزائر انٹرنیشنل اسکول میں نماز ادا کرنے والی طالبہ کے حوالے سے نئی تفصیلات شائع کی ہیں۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ پرنسپل کی جانب سے کلاس سے نکالی جانے والی طالبہ کا نام عائشہ ہے اور وہ بریک ٹائم میں ایک الگ تھلگ مقام پر نماز ادا کر رہی تھی نہ کہ اسکول کے درمیانی صحن میں جیسا کہ وزیر تعلیم نوریہ بن غبریت کی زبانی سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عائشہ کو اسکول کے اندر ایک ہال میں نماز ادا کرنے سے منع کر دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اسکول میں ایک کونے میں نماز ادا کرنے پر مجبور ہوئی۔
عائشہ اسکول کی بہترین طالبات میں سے ہے اور وہ امتیازی نمبر حاصل کرتی رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسکول میں پابندی سے نماز ادا کرنے والے طلبہ کی کُل تعداد صرف 5 ہے اور یہ لوگ ظہر کی نماز کے علاوہ کوئی نماز اسکول میں ادا نہیں کرتے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ الجزائر انٹرنیشنل اسکول میں تعلیم کا سلسلہ 2001 میں شروع ہوا تھا اور اس وقت سے نماز کے خواہش مند طلبہ ظہر کی نماز بریک ٹائم کے دوران اسکول میں ہی ادا کرتے ہیں۔ ذرائع نے سوال اٹھایا ہے کہ اتنے سالوں بعد اب اس معاملے کو اٹھانے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں ؟
ذرائع نے بتایا کہ پیرس انٹرنیشل اسکول کے طلبہ نے بھرپور طریقے سے اپنی ساتھی طالبہ عائشہ کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے اور اس کے کلاس سے نکالے جانے کے فیصلے کے خلاف دو روز کے لیے تعلیمی سلسلے کا بائیکاٹ کیا ہے۔
اسکول کے طلبہ کے سرپرستوں نے پیرس میں الجزائر کے سفیر عبدالقادر مسدوہ کو شکایت پیش کی جس پر سفیر نے اپنے طور سے اسکول میں نماز کی ممانعت کی ہدایت کو منسوخ کرنے اور سزاوار قرار دی جانے والی طالبہ کی کلاس میں واپسی کا حکم دیا تاہم طالبہ کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
طلبہ کے سرپرستوں کے مطابق اسکول میں ریستوران کے برابر واقع ایک چھوٹا ہال کبھی کبھار نماز کے لیے استعمال ہو جاتا تھا مگر پرنسپل نے اسے تالا لگا دیا تا کہ طلبہ کو اس کے اندر نماز ادا کرنے سے روک دیا جائے۔ پرنسپل نے ریستوران کو بھی تالا لگا دیا ہے جس کے سبب طلبہ اسکول سے باہر کھانے پینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ذرائع نے سوال اٹھایا ہے کہ اسکول کی پرنسپل کے خاتون وزیر نوریہ بن غبریت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے پیچھے کیا راز ہے۔ ساتھ ہی اس بات کی وجہ پوچھی گئی ہے کہ الجزائر کا سفارت خانہ تمام اہل کاروں کو 60 فی صد ہاؤس رینٹ ادا کرتا ہے مگر پیرس میں الجزائر انٹرنیشنل اسکول کی پرنسپل کو ان کے اپارٹمنٹ کا 100 فی صد کرایہ ادا کیا جاتا ہے لہذا پرنسپل پر یہ کرم نوازی کس سلسلے میں ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پرنسپل کی اپنی بیٹی کسی فرانسیسی اسکول میں زیر تعلیم ہے تو کیا پرنسپل کو اپنے اسکول کے معیار پر اعتماد نہیں جہاں دیگر الجزائری بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔