ذیابیطس زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والے متعدد امراض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ ذیابیطس کی کسی بھی قسم کی تشخیص کسی فرد میں ہو ان کے خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو کہ سنگین طبی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
سب سے عام ذیابیطس کی قسم ٹائپ ٹو جس میں مریض کا جسم انسولین کو استعمال کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے جبکہ ٹائپ ون میں جسم انسولین نہیں بناتا۔
ذیابیطس ٹائپ ون عام طور پر جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر کے باعث لاحق ہوتی ہے جبکہ ٹائپ ٹو ناقص طرز زندگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
موٹاپے کے شکار افراد میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ بہت زیادہ وہتا ہے تاہم صحت بخش غذا اور ورزش کو معمول بناکر اس مرض کو کافی حد تک ریورس کیا جاسکتا ہے۔
مگر ٹائپ ٹو سے پہلے لوگوں کو پری ڈائیبٹیس کا مرض لاحق ہوتا ہے جس میں بلڈ شوگر لیول کافی زیادہ ہوجاتا ہے مگر وہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اس کی تشخیص ذیابیطس کے طور پر کی جاسکے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس سے پہلے کے عارضے کے شکار 90 فیصد افراد اپنی حالت سے آگاہ نہیں ہوتے جس کے باعث ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اگر آپ کو پری ڈائیبٹیس کا عارضہ لاحق ہوجائے تو آئندہ 5 برسوں کے اندر وہ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں بدل سکتا ہے۔
اس عارضے کے دوران جسم چینی یا گلوکوز کو پراسیس تو کرتا ہے مگر بتدریج یہ سسٹم بگڑنے لگتا ہے۔
اس عارضے کی کوئی واضح علامات تو موجود نہیں مگر انہیں ذیابیطس جیسی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
جیسے ان کے جسم کے کچھ حصوں کی رنگت گہری ہوسکتی ہے اور ایسا عام طور پر گردن، گھٹوں، بغلوں یا کہنیوں میں ہوتا ہے۔
دیگر علامات میں بار بار پیشاب آنا، بہت زیادہ پیاس اور بھوک لگنا، چکر آنا، تھکاوٹ، نظر دھندلانا، خراشیں بہت دیر میں مندمل ہونا، ہاتھ یا پیروں میں درد یا سوئیاں چبھنے کا احساس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اگر آپ کو بھی ایسا کچھ محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور بلڈ گلوکوز کی اسکریننگ کروائیں۔