ممبئی:اپنی رعب دار آواز اور بااثر اداکاری سے تقریبا چار دہائیوں تک ناظرین کے دلوں پر راج کرنے والے ہندستانی سنیما کے عظیم اداکار پرتھوی راج کپور اپنے ذاتی کاموں کے تیئں وقف اور نرم مزاج انسان تھے ۔
29 مئی برسی کے موقع پر جاری
کئی خاموش فلموں میں کام کرنے کے بعد برصغیر کی پہلی بولتی فلم عالم آرا میں بھی کام کرنے والے پرتھوی راج کپور کی پیدائش 3 نومبر 1906 میں مغربی پنجاب کے لائل پور میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لائل پور میں مکمل کی جو اب لاہور (پاکستان) میں ہے ۔ان کا رجحان تھیٹر کی جانب زیادہ تھا اور اس کے لیے انہوں نے 1944 میں اپنا چلتا پھرتا تھیٹر گروپ قائم کیا جس کا نام ‘فن ملک کی خدمت میں’ رکھا تھا۔ 1960 تک یہ گروپ کام کرتا رہا۔
پرتھوی راج کپور نے اپنے کیریئر کا آغاز 1928 میں ممبئی میں امپیریل فلم کمپنی سے کیا۔ 1930 میں بی پی مشرا کی فلم ‘سنیما گرل ‘ میں اداکاری کی اور کچھ وقت بعد اینڈرسن کی تھیٹر کمپنی کے ڈرامہ شیکسپیئر میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔ سال 1933 میں پرتھوی راج کپور کولکتہ کے مشہور نیو تھیٹر کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔ انہوں نے 2662 شوز کیے ۔ ان کے ہر ڈرامے میں ایک پیغام ہوتا تھا۔ سنجیدہ سماجی مسائل کو انہوں نے ہمیشہ اہمیت دی۔ اس کا اندازہ ان کے ڈراموں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں سماجی مسائل اس دور میں کسانوں کی زبوں حالی، ہندو مسلم تعلقات یا پھر سماج میں دولت کی بڑھتی اہمیت نمایاں ہوتے تھے ۔
سال 1933 میں فلم’ راج راني اور 1934 میں دیوکي بوس کی فلم ‘سیتا’ کی کامیابی کے بعد بطور اداکار پرتھوی راج کپور اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے نیو تھیٹر کی زیر تعمیر کئی فلموں میں اداکاری کی جس میں ‘منزل، پریسیڈنٹ’ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
پرتھوی راج کپور نے اپنی فلموں میں تھیٹر کے فن کو آزمایا۔ ان کی آواز کی گھن گرج تھیٹر کے فن میں کام آئی تو وہیں فلم مغل اعظم میں ان کی آواز اس فلم کا اہم حصہ بنی اور وہ کردار ان کی بھاری بھر کم شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے زندہ جاوید بن کر رہ گیا۔
سال1937 میں جاری فلم ‘ودیاپتی ‘میں پرتھوی راج کپور کی اداکاری کو سامعین نے کافی سراہا ۔ 1940 میں فلم ‘پاگل’ میں انہوں نے اپنے سنے کیرئیر میں پہلی مرتبہ اینٹی ہیرو کا کردار نبھایا۔ 1941 میں سہراب مودی کی فلم ‘سکندر’ سے وہ کامیابی کی چوٹی پر جا پہنچے ۔ 1944 میں انہوں نے اپنی خود کی تھیٹر کمپنی ”پرتھوی تھیٹر ”شروع کیا ۔ اس تھیٹر میں جدید اور شہری نظریات کا استعمال کیاگیا جو اس وقت کے فارسی اور روایتی تھیٹروں سے بہت مختلف تھا۔ آہستہ آہستہ سامعین کی توجہ تھیٹر سے ہٹ گئی کیونکہ ان دنوں ناظرین پر بڑے پردے کا کریز زیادہ غالب تھا۔ پرتھوی تھیٹر کے سب سے زیادہ مشہور ڈراموں میں دیوار، پٹھان غدار اور پیسہ شامل ہیں۔ پرتھوی راج کپور نے اپنے تھیٹر کے ذریعہ کئی پوشیدہ صلاحیتوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ اس میں رامانند ساگر اور شنکر جے کشن جیسی مشہور شخصیات شامل ہیں۔
ساٹھ کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے پرتھوی راج کپور نے فلموں میں کام کرنا بہت کم کردیا تھا ن۔ 1960 میں منظرعام پر آئی کے آصف کی فلم ‘مغل اعظم’ میں ان کے سامنے شہنشاہ جذبات دلیپ کمار تھے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی بااثر اداکاری سے شائقین کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ۔
پرتھوی راج کپور نے 1965 میں فلم ‘آسمان محل’ میں کبھی نہ بھولنے والا کردار نبھایا۔ 1968 میں ریلیز فلم ‘تین بہورانیاں’ میں انہوں نے خاندان کے سربراہ کا کردار ادا کیا جو اپنی بہووں کو سچائی کے راستے پر چلنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اپنے پوتے رندھیر[؟][؟]کپور کی فلم’کل آج اور کل’ میں انہوں نے یادگار کردارنبھایا اور 1969 میں پنجابی فلم’نانک نام جہاں ہے ‘ میں بھی اپنی اداکاری کا جادو جگایا۔اس فلم کی کامیابی نے نام نہاد پنجابی فلم انڈسٹری کو ایک نئی زندگی دی ۔
فلم انڈسٹری میں ان کی اہم شراکت کو دیکھتے ہوئے انہیں 1969 میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے سے بھی انہیں سرفراز کیا گیا ۔ اس عظیم اداکار نے 29 مئی 1972میں اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔