نہ تاج کا غرور، نہ شہرت کا جنون — صرف فن سے عشق!
ایسا فنکار جو کردار میں ڈھل کر لوگوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا، اور ایسا انسان جس ka، جذبہ بولتا تھا۔ پرتھوی راج کپور صرف ایک اداکار نہیں تھے، وہ ایک فلسفہ تھے — ایک تحریک، ایک روحانی فنکار، جو سادگی کے لبادے میں
شاہی وقار لیے پھرتا تھا۔
اپنی بلندآواز، دبنگ انداز اور زبردست اداکاری کی بدولت تقریباً چار دہائیوں تک سینما کے شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے ہندوستانی سینما کے عظیم اداکارپرتھوی راج کپور نرم دل انسان تھے۔
فلم انڈسٹری میں پاپا جی کے نام سے مشہور پرتھوی راج اپنے تھیٹر کے تین گھنٹے کے شو کے ختم ہونے کے بعد گیٹ پر ایک جھولی لے کر کھڑے ہو جاتے تھے تاکہ شو دیکھ کر باہر نکلنے والے لوگ جھولی میں کچھ پیسے ڈال سکیں۔ ان پیسوں کے ذریعے پرتھوی راج کپور نے ایک ورکر فنڈ بنایا تھا، جس کے ذریعے وہ پرتھوی تھیٹر میں کام کرنے والے ساتھیوں کو ضرورت کے وقت مدد کیا کرتے تھے۔ پرتھوی راج کپور اپنے کام کے تئیں بہت وقف تھے۔ ایک بار اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے انہیں غیر ملکی ثقافتی وفد میں شامل ہونے کی پیشکش کی، لیکن پرتھوی راج کپور نے نہرو جی سے کہہ کر اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ وہ تھیٹر کا کام چھوڑ کر غیر ملکی سفر نہیں کر سکتے۔
بچپن سے خوابوں تک: وہ لڑکا جو آسمان چھونے چلا
1906 میں لائلپور کی سرزمین پر جنم لینے والے پرتھوی راج کپور کا خواب عام نہ تھا۔ انہوں نے محض الفاظ یا جذبات سے نہیں، بلکہ اپنے عمل سے دنیا کو بتایا کہ خواب سچے بھی ہوتے ہیں — اگر اُن کے پیچھے دیوانگی ہو۔
اسکرین پر سچائی، کردار میں زندگی
پرتھوی راج کپور نے جب سنیمامیں قدم رکھا، تو لفظوں نے بولنا سیکھا اور خاموشی نے گہری معنویت اختیار کر لی۔ ان کی فلمیں:
-
“سکندر” میں ایک فاتح کا وقار
-
“آوارہ” میں باپ کی بے بسی
-
“مغلِ اعظم” میں اکبر کا شاہانہ رعب
ان سب کرداروں میں پرتھوی راج صرف اداکار نہ تھے — وہ جذبہ تھے، وہ تاریخ تھے۔
پرتھوی تھیئٹر: ایک خواب جو سچ ہوا
1944 میں پرتھوی راج نے جب “پرتھوی تھیئٹر” کی بنیاد رکھی، تو اُن کے سامنے کوئی دولت یا شہرت کا مقصد نہ تھا۔ مقصد تھا: تھیٹر کو زندہ رکھنا، اس فن کو عزت دینا، اور سچائی کو اسٹیج پر لانا۔
-
وہ خود ریہرسل کرتے
-
خود پردہ کھینچتے
-
خود فنکاروں کو تربیت دیتے
-
اور آخر میں وہی فرش پر سوتے
یہ سب کچھ وہ ایک ہی جذبے سے کرتے: “فن عبادت ہے!”
مغربی پنجاب کے لائل پور(موجودہ پاکستان) میں 3 نومبر 1906 کو پیدا ہونے والے پرتھوی راج کپور نے اپنی ابتدائی تعلیم لیالپور اور لاہور میں مکمل کی۔ ان کے والد دیوان بشیشور ناتھ کپور پولیس سب انسپکٹر تھے۔ ان کے والد کا تبادلہ پشاور میں ہوا۔ انہوں نے اپنی مزید تعلیم پشاور کے ایڈورڈ کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے قانون کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی، کیونکہ اس وقت تک ان کا رجحان تھیٹر کی طرف ہو گیا تھا۔ محض 18 سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی۔ 1928
میں اپنی چاچی سے مالی امداد لے کر پرتھوی راج کپور اپنے خوابوں کے شہر ممبئی پہنچے۔
پرتھوی راج کپور نے اپنے کیریئر کا آغاز 1928 میں ممبئی میں امپیریل فلم کمپنی سے منسلک ہو کر کیا۔ 1930 میں بی پی مشرا کی فلم “سینما گرل” میں انہوں نے اداکاری کی۔ کچھ عرصے بعد اینڈرسن کی تھیٹر کمپنی کے ڈرامے شیکسپیئر میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔ تقریباً دو سال تک فلم انڈسٹری میں جدوجہد کرنے کے بعد انہیں 1931 میں ریلیز ہونے والی پہلی بولتی فلم عالم آراء میں معاون اداکار کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ 1933 میں وہ کولکاتہ کے مشہور نیو تھیٹر کے ساتھ منسلک ہوئے۔
نرم دل بادشاہ: پردے کے پیچھے ایک شفیق انسان
بزرگوں کا ادب، نوجوانوں کی رہنمائی، خواتین کی عزت، اور ٹیم کا خیال — پرتھوی راج کپور کا ہر عمل محبت کی خوشبو سے بھرا ہوتا تھا۔ وہ اپنے فنکاروں کے باپ جیسے، ناظرین کے دلوں کی دھڑکن، اور خاندان کے لیے روشنی کا مینار تھے۔
مغلِ اعظم: وہ کردار جس نے تاریخ بنائی
جب انہوں نے اکبرِ اعظم کا کردار نبھایا، تو فلمی دنیا لرز اُٹھی۔
ان کی گرجتی آواز میں شیر کی دھاڑ تھی، اور آنکھوں میں باپ کی بے چینی۔
ان کا وہ ڈائیلاگ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے:
سلطنتیں تلواروں سے فتح کی جاتی ہیں، محبت سے نہیں!”