دیوبند : کورونا وائرس کے سبب ملک سمیت ضلع کے تمام اسکول ،کوچنگ سینٹراورتعلیمی اداروں میں پوری طرح سے تالابندی ہے جس کے سبب پرائیویٹ اسکول اور کوچنگ اداروں کے مالکان اور اس میں تعلیم دینے والے اساتذہ کے سامنے معاشی تنگی آنے لگی ہے عالم یہ ہے کہ کورونا مدت میں گزشتہ چار ماہ سے بند پڑے پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ مالی دشواریوں کے پیش نظر مزدوری کرنے کو مجبور ہو گئے ہیں ،
دیہی علاقوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی انہیں اپنے کنبہ کی کفالت کے لئے مزدوری کرنی پڑ رہی ہے ،دیہی علاقوں کے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ جہاں جنگلوں میں کھیتوں میں فصلوں کی بوائی کرتے نظر آ رہے ہیں تو وہیں اب متعدد اسکولوں کے مالکان بھی دوسرے کاروبار میں دلچسپی لیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔گاؤں مایاپور کے رہنے والے پنکج ،راجیش کمار ،دیوبند کی ٹیچر کالونی کے رہنے والے ارون کمار ،راجیش شرما ،کھٹولی گاؤں کے ماسٹر راجیو ،ناگل کے وجیندر چودھری اور محلہ بڑ ضیاء الحق کے رہنے والے عمران قریشی وغیرہ نے بتایا کہ وہ گزشتہ20برسوں سے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن گزشتہ چار ماہ سے بند پڑے اسکولوں سے انہیں اب تک تنخواہیں نہیں ملی ہیںجبکہ ان کا سارا دارومدار تنخواہ پر ہی ہے ،مجبور ہوکر انہیںدوسرے کام تلاش کرنے پڑ رہے ہیں واضح ہو کہ دیوبند تحصیل علاقہ میں پانچ سو پرائمری ،چار سو جونئر ہائی اسکول و انٹر میڈئٹ کے سو سے زیادہ تعلیمی ادارے ہیں جن میں قریب 20ہزار پرائیویٹ اساتذہ تعلیمی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن مذکورہ اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ سے اب زیادہ تر اساتذہ کو مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔موجودہ صورتحال میں زیادہ تر اسکول مالکان نے اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے۔
،کھیڑا مغل گاؤںکے رہنے والے دیپک ،راجوپور گاؤں کے سلیم احمد اور دیوبند کی باشندہ خاتون نیشو تیاگی وغیرہ اسکول مالکان نے بتایا کہ پرائیویٹ اسکولوں کو بہتر طریقہ سے چلانے کے لئے تعلیمی فیس ہی وسائل ہے ،مارچ مہینے سے نافذ لاک ڈاؤن کے سبب اور گارجینوں کی معاشی حالت بھی خراب ہونے سے تمام اسکولوں میں تعلیمی فیس جمع نہیں ہو پائی ہے جس کے سبب تدریسی و غیر تدریسی ملازمین کو تنخواہ دے پانا اور سبھی کے لئے زندگی گزارنا اب نا ممکن ہو گیا ہے انہوں نے بتایا کہ تنخواہ کے علاوہ ہر اسکول کے دیگر ضروری ماہانہ خرچ بھی ہیں جیسے بلڈنگ کا کرایہ بینک کے لون کی ماہانہ قسط ،مینٹیننس،گاڑیوں کی ای ایم آئی اور بجلی کے بل وغیرہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ٹیکس ہمیں دینے ہوتے ہیں جس میں حکومت کی جانب سے ہمیں کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے ۔جس کے سبب وہ انتہائی ذہنی دباؤ میں ہیں ،انہوں نے کہا کہ ایسے میں وہ کہاں سے اساتذہ کی فیس دیںاور کیسے اسکول چلائیں انہوں نے کہا کہ وہ اب نیا کاروبار شروع کرنے کی سوچ رہے ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال میںاسکولوںکو چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔اتر پردیش اسکول ویل فیئر ایسو سی ایشن کے ریاستی صدر ماسٹر شیش پال چودھری کا کہنا ہے کہ صوبہ میں اسکولوں کے بند ہونے سے پچاس لاکھ سے بھی زیادہ اساتذہ بے روز گار ہو گئے ہیں اگر حکومت کی جانب سے فوری مدد نہیں ملی تو آنے والے دنوں میں بقیہ لوگ بھی بے روزگار ہو جائیں گے ۔