امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے درست پیشگوئی کرنے کے حوالے سے مشہور پروفیسر ایلن لچ مین نے رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے حوالے سے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
امریکا کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے متعدد سرویز سامنے آ رہے ہیں جن میں دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان کانٹے کے مقابلے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
صدارتی اُمیدواروں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ 10 ستمبر کو ہونا ہے لیکن پروفیسر ایلن لچ مین کی پیشگوئی کے بعد امریکی صدارتی انتخابات مزید دلچسپ ہوگئے ہیں
امریکی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ایلن لچ مین 1984 سے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور ایلن لچ مین جس صدارتی امیدوار کے بارے میں پیشگوئی کرتے ہیں وہی صدر منتخب ہوتا ہے۔
1984 سے پروفیسر ایلن لچ مین نے صدارتی انتخابات کی جیت ہار کی پیشگوئی میں صرف ایک کے علاوہ سب کی درست پیشگوئی کی ہے، پروفیسر لچ مین کی سن 2000 میں ہونے والی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی تھی۔
پروفیسر ایلن لچ مین کو امریکا کے صدارتی انتخابات کا نوسٹرا ڈیمس کہا جاتا ہے، لچ مین ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی ہلیری کلنٹن کے خلاف کامیابی کی درست پیش گوئی کی تھی، اس وقت زیادہ تر رائے عامہ کے جائزوں نے اس کے برعکس امکان ظاہر کیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی درست پیشگوئی کی تھی کہ ٹرمپ کو ان کی صدارت کے دوران مواخذہ کیا جائے گا اور ٹرمپ کے ساتھ ایسا دو بار ہوا۔
پروفیسر ایلن لچ مین نے 1984 کے صدارتی انتخابات کی پیشگوئی 1982 میں ہی کر دی تھی جس میں انہوں نے تمام تجزیوں کے برخلاف رونالڈ ریگن کی جیت کی رائے دی تھی اور ایسا ہی ہوا اور پھر 2010 میں انہوں نے باراک اوباما کے صدر بننے کی پیشگوئی کی تھی جو 2012 میں امریکا کے صدر بنے تھے۔
امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ایلن لچ مین کا کہنا تھا میں نے 2016، 2020 اور 2024 میں بھی ٹرمپ کی حمایت نہیں کی کیونکہ وہ میرے ماڈل کے مطابق عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فٹ نہیں بیٹھتے، ان کی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی شرح 41 فیصد ہے جو تاریخ میں کسی بھی صدارتی امیدوار کی کم ترین شرح ہے، ٹرمپ نے 2 انتخابات مجموعی طور پر ایک کروڑ پاپولر ووٹس سے ہارے۔
پروفیسر ایلن لچ مین کے مطابق ڈیموکریٹکس نے کملا ہیرس کا انتخاب کر کے بہت اہم فیصلہ کیا ہے جس سے انہیں پارٹی اور عوامی سطح پر بڑی پزیرائی ملی ہے اور دوسرا اہم فیکٹر یہ بھی ہے کہ لوگ دو سفید فارم امیدواروں کے مقابلے میں سیاہ فارم صدارتی امیدوار کو ترجیح دیں گے۔