عالم تشیع کے اہم مراجع تقلید میں سے ایک آیۃ اللہ العظمی سیستانی نے اپنے ایک فتوے میں تقریبا تین ہفتے بعد شروع ہونے جا رہے محرم الحرام کے مہینے میں عزاداری کے پروگراموں کے انعقاد کے لیے ضروری احکام جاری کیے ہیں۔
عراق کے مقدس شہر نجف اشرف کے بعض مومنین نے آیۃ اللہ العظمی سید علی سیستانی سے پوچھا تھا کہ کورونا کی وبا کے جاری رہنے اور ملکی حکام کی جانب سے بڑے اجتماعات سے گریز کیے جانے پر تاکید اور ساتھ ہی بہت سے مومنین کی جانب سے عزاداری کے پروگرام معمول کے مطابق ہی منعقد کیے جانے پر اصرار کے پیش نظر، امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے پروگرام کس طرح منعقد کیے جائيں؟ اس استفتاء کے جواب میں آیۃ اللہ العظمی سیستانی نے فرمایا ہے کہ محرم کے دردناک اور دلسوز ایام میں سیدالشہداء علیہ السلام کی شہادت پر غم ظاہر کرنے کے مختلف راستے ہیں جیسے:
-
ٹی وی چینلوں اور سائبر اسپیس کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزا کو زیادہ سے زیادہ براہ راست نشر کیا جائے۔ اس سلسلے میں دینی و ثقافتی ادارے ماہر خطیبوں سے استفادہ کریں اور مومنین کو اپنے گھروں میں رہ کر مجالس سننے کی ترغیب دلائیں۔
گھروں میں منعقد ہونے والی مجالس دن یا رات میں مقررہ وقت پر انجام پائيں جن میں صرف اہل خانہ یا ان کے یہاں آمد و رفت رکھنے والے افراد ہی شریک ہوں اور ٹی وی یا انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست نشر ہونے والے عزاداری کے پروگراموں کو دیکھیں اور سنیں۔ عمومی مجالس میں سبھی میڈیکل پروٹوکولز پر پوری طرح سے عمل ہونا چاہیے؛ یعنی مجلس میں موجود لوگوں کے درمیان سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھا جائے اور ماسک نیز کورونا کی روک تھام کرنے والے دیگر ضروری وسائل کو استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں اس بات کا بھی خيال رکھا جائے کہ متعلقہ حکام جتنے لوگوں کی تعداد معین کریں، اتنے ہی لوگ مجالس میں شریک ہوں، البتہ مجلس عزا کے انعقاد کے مقام کے کھلے یا چھت دار ہونے اور اسی طرح مختلف شہروں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کے پیش نظر یہ تعداد مختلف ہو سکتی ہے۔
عاشورائي مظاہر کو زیادہ سے زیادہ تقسیم کیا جائے، چوراہوں، سڑکوں، گلیوں اور دیگر عمومی مقامات پر لوگوں کے اموال اور املاک کو نقصان پہنچائے بغیر اور ملک کے قوانین کی تعمیل کرتے ہوئے علم اور سیاہ کپڑے نصب کیے جائیں۔ محرم کے ایام میں رائج طریقے سے لوگوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں ضروری ہے کہ کھانے کی تیاری اور تقسیم میں میڈیکل پروٹوکولز کا پورا خیال رکھا جائے، چاہے ان باتوں پر عمل کے سبب کھانا تقسیم کرتے وقت بھیڑ سے بچنے کے لیے صرف خشک کھانا دینا پڑے یا پھر مومنین کے گھروں تک پہنچانے پر اکتفا کرنا پڑے۔