یورپی یونین نے سن دو ہزار بیس کے بعد جنگلات کاٹ کر حاصل کی جانے والی زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس پابندی کی خلاف وزری کرنے والی یورپی کمپنیوں کو بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔
یورپی یونین ایسے علاقوں سے کافی، لکڑی اور پام آئل جیسی مصنوعات کی درآمد پر آئندہ عملی پابندی عائد کر دے گی، جہاں ایسی اجناس کی پیداوار کو ممکن بنانے کے لیے سن دو ہزار بیس کے بعد جنگلات کا صفایا کر دیا گیا ہو۔ یورپی یونین کے رکن ممالک نے یورپی پارلیمنٹ میں مذاکرات کے بعد اس اقدام کی باضابطہ طور پر منظوری دے دی۔ ترقیاتی امور کی وفاقی جرمن وزیر سوَینیا شُلسے نے اس یورپی قانون سازی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔
کافی یوریی باشندوں کا پسندیدہ ترین مشروب ہے لیکن اب نئ پابندیوں کے بعد اس کی برآمد کے لیے بھی کاروباری کمپنیوں کو انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی:
اس یورپی درآمدی پابندی کا مقصد جنوبی امریکہ میں ایمیزون کے علاقے سمیت دنیا بھر میں بارانی جنگلات کی کٹائی میں نمایاں کمی لانا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”عالمی سطح پر جنگلات کے خاتمے اور جنگلاتی رقبے میں کمی کا اصل محرک زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین میں توسیع کی کوششیں ہیں۔‘‘
یورپی پارلیمان کے مطابق سن 1990 اور 2020 کے درمیانی عرصے میں جنگلات کے خاتمے کے دس فیصد تک کی وجہ یورپی یونین میں صارفین سے جڑی وجوہات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نئی قانون سازی کے تحت کاروباری کمپنیاں مستعدی سے ایسے اعلانات جاری کرنے کی پابند ہوں گی کہ 31 دسمبر 2020 کے بعد سے ان کی مصنوعات کی تیاری کے عمل میں کسی جنگل کو کاٹا گیا اور نہ ہی اسے کوئی نقصان پہنچایا گیا۔
یورپی یونین کی فیصلہ کردہ یہ پابندی جنگلات کے ذریعے حاصل کردہ دیگر مصنوعات جیسے چاکلیٹ، فرنیچر یا شائع شدہ کاغذ پر بھی لاگو ہو گی۔ اس پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین میں کسی بھی متعلقہ کمپنی کو اپنی سالانہ آمدنی کا کم از کم بھی چار فیصد تک حصہ بطور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
’کاغذ کے لیے جنگلات نہیں کاٹیں گے‘
تحفظ ماحول کے لیے سرگرم عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نے یورپی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں کسٹمز کے محکموں کے طریقہ ہائے کار کو بھی واضح طور پر مضبوط بنائیں تاکہ اس پابندی کی ممکنہ خلاف ورزیوں پر ان کے ذمے دار اداروں کو مؤثر سزائیں سنائی جا سکیں۔