سنگاپور: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف ہفتوں سے جاری احتجاج کے دوران مختلف علاقوں میں پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ سے 18 افراد ہلاک ہوگئے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کا کہنا تھا کہ اتوار کو میانمار پولیس نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کردی جس سے کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے۔
واضح رہے کہ ہفتوں سے جاری احتجاج میں یہ سب سے زیادہ خونی دن ثابت ہوا۔
ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون کے مختلف حصوں میں پولیس کی جانب سے اسٹن گرینیڈ، آنسو گیس کے شیل برسانے پر بھی ہجوم کو منتشر کرنے میں ناکامی کے بعد پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے مختلف مقامات پر فائرنگ شروع کی۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی تصاویر میں متعدد زخمیوں کو ان کے ساتھی مظاہرین کی جانب سے گھسیٹ کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا اور ان کے جسم سے نکلتے خون کے نشان بھی سڑکوں پر نظر آئے جبکہ ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک شخص سینے پر گولی لگنے کی وجہ سے ہسپتال آنے کے بعد دم توڑ گیا۔
ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر کو موصول ہونے والی معتبر معلومات کے مطابق پولیس اور پیراملٹری فورسز نے پرامن مظاہرین کے خلاف مہلک اور کم مہلک طاقت کا استعمال کیا اور اس دوران 18 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہوگئے‘۔
واضح رہے کہ میانمار میں یکم فروری کو فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے اور منتخب حکومتی رہنما آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ان کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی کے لیے نومبر انتخابات میں دھوکا دہی کی۔
فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار میں افراتفری کی صورتحال ہے۔
مذکورہ فوجی بغاوت، جس نے تقریباً 50 سال کی عسکری حکمرانی کے بعد جمہوریت کی طرف اٹھنے والے عارضی اقدامات کو روک دیا تھا، پر عوام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے جبکہ مغربی ممالک کی جانب سے بھی اس کی مذمت کی گئی۔
ادھر ایک میڈکس کا کہنا تھا کہ ینگون میں مرنے والے 5 افراد میں انٹرنیٹ نیٹ ورک انجینیئر نائی نائی آنگ حتیٹ نائنگ بھی تھے جنہوں نے ایک روز قبل ہی فیس بک پر بڑھتے کریک ڈاؤن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
وہی ایک استاد کی بیٹی اور ساتھیوں نے بتایا کہ استاد ٹن نیو یی کی موت پولیس کی جانب سے اساتذہ کے مظاہرے کو اسٹن گرینیڈ سے منتشر کرنے اور ہجوم کو بھاگنے پر مجبور کرنے کے بعد ہوئی۔
اس کے علاوہ پولیس نے ینگون میڈیکل اسکول کے باہر بھی اسی طرح طاقت کے استعمال کا سلسلہ جاری رکھا اور وائٹ کوٹ الائنس آف میڈکس کے مطابق 50 سے زیادہ طبی عملے کو گرفتار کرلیا گیا۔
تمام صورتحال کے بارے میں ایک سیاست دان کیاؤ من حتیکی کا کہنا تھا کہ جنوب میں داوئی کے مقام پر 3 افراد کو ہلاک کردیا گیا جبکہ میانمار ناؤ میڈیا اور ایک رہائشی کے مطابق مندالے شہر میں 2 افراد مارے گئے۔
رہائشی سائی تن کا کہنا تھا کہ ایک خاتون کو سر پر گولی ماری گئی۔
علاوہ ازیں پولیس اور حکمران فوجی کونسل کے ترجمان نے اس تمام صورتحال پر کوئی جواب نہیں دیا۔
یاد رہے کہ اب تک ان مظاہروں میں 21 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ فوج کا کہنا تھا کہ ایک پولیس اہلکار بھی مارا گیا ہے۔
مزید برآں امریکی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ میانمار میں کئی جانوں کے ضیاع پر ہمارے دل دکھے ہیں، فوجی بغاوت کے خلاف اختلاف کا اظہار کرنے والوں کو تشدد کا سامنا نہیں کرنا چاہیے، شہریوں کو نشانہ بنانا گھناؤنا ہے۔