ممبئی: مشہور ہندوستانی گلوکارہ اور اداکارہ بیگم اختر کی دلکش آواز میں ایسی شعلگی جاگزین تھی جو سامعین کے دلوں کو پگھلا کراس میں سوز بھر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ملکۂ غزل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بیگم اخترکی پیدائش 7 اکتوبر 1914ء کو فیض آباد کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی تھی۔ اُن کا حقیقی نام اختری بائی تھا۔ اُن کے والد اصغر حسین ایک نوجوان وکیل تھے۔ بیگم اختر نے فیض آباد میں سارنگی کے استاد ایمان خاں اور عطا محمد خان سے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور محمد خان، عبدالوحید خان سے بھارتیہ شاستریہ موسیقی سیکھی۔
تیس کی دہائی میں بیگم اختر پارسی تھیٹر سے منسلک ہو گئیں۔ ڈراموں میں کام کرنےکی وجہ سے ان کا ریاض چھوٹ گیا جس سے محمد عطا خان کافی ناراض ہوئے لیکن جب وہ بیگم اختر کا ڈرامہ ‘ترکی حور’ دیکھنے گئے اور اس ڈرامے کا گانا ‘چل ری میری نئیا’ نغمہ سنا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور ڈرامہ ختم ہونے کے بعد انہوں نے بیگم اختر سے کہا ”بٹیا تو سچی اداکارہ ہے۔”
بطور اداکارہ بیگم اختر نے ‘ایک دن کا بادشاہ’ سے سنیما میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا لیکن اس فلم کی ناکامی کی وجہ سے اداکارہ کے طورپر وہ کچھ خاص شناخت نہیں بنا پائیں۔ 1933 میں ایسٹ انڈیا کے بینر تلے بنی فلم نل دمینتی کی کامیابی کے بعد بیگم اختر بطور اداکارہ اپنی کچھ شناخت بنانے میں کامیاب رہیں۔اس دوران بیگم اختر نے امینا، ممتاز بیگم، جوانی کا نشہ، نصیب کا چکر جیسی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ کچھ وقت کے بعد وہ لکھنؤ چلی گئیں جہاں ان کی ملاقات مشہور پروڈیوسر اور فلم ساز محبوب خان سے ہوئی جو بیگم اختر کے فن سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں ممبئی آنے کی دعوت دی۔
سال 1942 میں محبوب خان کی فلم ‘روٹی’ میں بیگم اختر نے اداکاری کے ساتھ ساتھ گانے بھی گائے۔ اس فلم کے لئے بیگم اختر نے چھ گانے ریکارڈ کرائے تھے لیکن فلم بنانے کے دوران موسیقار انل وشواس اور محبوب خان کے آپسی جھگڑے کے بعد ریکارڈ کئے گئے تین گانوں کو فلم سے ہٹا دیا گیا۔ بعد میں ان کے انہی گانوں کو گراموفون ڈسک نے جاری کیا۔ کچھ دنوں کے بعد بیگم اختر کو ممبئی کی چکا چوندھ کچھ عجیب سی لگنے لگی اور وہ لکھنؤ واپس چلی گئیں۔
سال 1945 میں جب بیگم اختر کا فن عروج پر تھا تب انہوں نے لکھنؤ کے ایک مشہور بیرسٹر اشتیاق احمد عباسی سے شادی کرلی۔ دونوں کی شادی کا قصہ کافی دلچسپ ہے۔ ایک پروگرام کے دوران بیگم اختر اور اشتیاق محمد کی ملاقات ہوئی۔ بیگم اختر نے کہا ”میں شہرت اور پیسے کو اچھی چیز نہیں مانتی۔ عورت کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ کسی کی اچھی بیوی بنے۔ یہ سن کر عباسی صاحب نے کہا کہ کیا آپ شادی کے لئے اپنا کیرئیر چھوڑ دیں گی۔ اس پر انہوں نے جواب دیا ‘ہاں اگر آپ مجھ سے شادی کرتے ہیں تو میں گانا بجانا تو کیا اپنی جان تک دے دوں گی۔’ شادی کے بعد انہوں نے گانا بجانا تو دور گنگنانا تک چھوڑ دیا۔
سال 1949 میں انہوں نے ایک بار پھر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے غزلیں گانے کے پروگرام دینے شروع کر دیئے۔ بیگم اختر کی شہرت کو دیکھتے ہوئے انہیں دوبارہ بطور اداکارہ کام کرنے کے لئے فلموں سے آفر آنے لگے، لہٰذا موسیقار مدن موہن کی سفارش پر 1953میں انہوں نے فلم ‘دانا پانی’ اوراس کے بعد فلم ‘احسان’ میں اداکاری کی اور گیت بھی گائے۔ اس کے بعد 1958ء میں ستیہ جیت رے کی بنگالی فلم ‘جلسہ گھر’ میں بھی کام کیا۔ بیگم اختر کی غزل گائیکی میں ایک شفاف اور بندھی ہوئی سُریلی ریشمی آواز کا احساس ہوتا تھا لہٰذا اُن کو ملکۂ غزل کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
اپنے شروعاتی دَور میں بیگم اختر نے بہزادؔ لکھنوی، مومن خاں مومنؔ اور اخترؔ کی غزلوں کو خاص طور پر گایا۔ انہوں نے غالبؔ کی بھی نو غزلیں گائیں۔ اِن کے علاوہ ذوقؔ، میرؔ، فیضؔ، شکیلؔ، شمیم جئے پوری، فاخر یحییٰ اور کیفی اعظمی کی تخلیقات کو بھی اپنی جادوئی آواز سے لبریز کیا۔ جلد ہی اُن کی غزل گائیکی اپنے عروج کو پہنچ گئی اور روز بہ روز اُن کی آواز میں نکھار آتا گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی مشہور اور مقبول شعراء کی غزلیں گائیں اور تقریباً چار سو سے زائد غزلوں کو اپنی آواز میں ریکارڈ کرایا۔
موسیقی کے میدان میں ان کی قابل ذکر شراکت کے پیش نظر 1972 میں انہیں سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ وہ پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازی گیئں۔ بیگم اختر نے اپنا آخری پرو گرام 30 اکتوبر 1974ء کو احمد آباد میں پیش کیا تھا جس کا عنوان تھا ”ایک شام بیگم اختر کے نام”۔ اس پروگرام میں انہوں نے ابھی ایک ہی غزل گائی تھی کہ انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور پروگرام درمیان ہی میں ملتوی کرنا پڑا تھا۔ مسلسل زندگی اور موت کی جنگ لڑنے کے بعد بیگم اختر نے احمدآباد کے اُسی اسپتال میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
بیگم اختر نے اپنی وفات سے قبل جو آخری غزل ریکارڈ کرائی تھی، وہ مشہور نغمہ نگار کیفی اعظمی کی تھی۔ سنا کرو مری جاں اُن سے اُن کے افسانے، سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے۔
بیگم اختر کی گائی ہوئیں کچھ مشہور غزلیں: وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، مومن خاں مومن۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا، مرزا غالب۔ میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے، شکیل بدایونی۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا، میر تقی میر۔ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے، شیخ ابراہیم ذوقؔ۔ اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے، کیفی اعظمی۔ کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا، سدرشن فاکر۔ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے، بہزاد لکھنوی۔ دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی، مرزا غالب۔ طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے، جگر مرادآبادی۔