لکھنئو۔ این آر سی اور سی اے اے کے خلاف ہوئے مظاہروں کے ملزمین کے ساتھ حکومت اتر پردیش کا جو رویہ ہے اس کے خلاف ہر طرف سے شدید آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایک طرف تو لوگ کورونا کی وجہ سے بدتر حالات سے گزر رہے ہیں تو وہیں، دوسری طرف حکومت اتر پردیش کی انتقامی کارروائیوں نے ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔
واضح رہے کہ لاک ڈاون کے سبب معاشی تنگی جھیل رہے لوگوں بالخصوص ان ملزمین کے ساتھ ،جن پر مظاہروں کے درمیان توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری پراپرٹی کو نقصان پہنچانے کے الزامات ہیں، غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے۔ ملزمین کو ریکوری کے نوٹس بھیجے جارہے ہیں۔ تھانوں میں بلایا جارہا ہے۔ پولس کی جانب سے گرفتاری کے نام پر ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔
مولانا سیف عباس کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں قانون اور انسانیت پر مبنی نہیں بلکہ انتقام اور نفرت پر مبنی ہیں۔ مولانا نے یہاں تک کہا کہ بڑے سے بڑے جرائم کرنے والے لوگوں کو بھی اپنی بات کہنے کا حق دیا جاتا ہے جبکہ ہم تو مجرم بھی نہیں، صرف بے بنیاد الزامات کی زد میں آئے ہوئے شہری ہیں۔ اس معاملے میں ضمانت پر رہا ہونے والی صدف جعفر کہتی ہیں کہ حکومت مسلم مخالفت میں منمانی کررہی ہے۔ فرداً فرداً 64 لاکھ روپئے کی ریکوری کے نوٹس بھیجے جارہے ہیں، پریشان کیا جارہا ہے، تھانوں میں بلایا جارہاہے جب کہ ہمیں اپنی بات کہنے کا حق تک نہیں دیا جارہا ہے۔ پوجا شکلا اور کبیر کا ماننا بھی یہی ہے کہ قانونی نہیں منمانی کارروائی کی جارہی ہے۔ کوئی پولس افسر نہ جواب سننے کو تیار ہے اور نہ تحریری جواب وصول کرنے کو تیار ہے۔
مولانا سیف عباس کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات ہیں کہ جن لوگوں سے وصولی کی جائے انہیں ثبوت کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ انہیں اس چیز کو نقصان پہنچانے کے عوض یہ رقم جمع کرنی ہے ، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے نہ کوئی تجزیہ ہے اور نہ تخمینہ بس ایک حکم ہے جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف جاری کردیا گیا اور اسی حکم کی بنیاد پر مظالم کا سلسلہ دراز کیا جارہاہے۔حالانکہ سماجی سطح پر بھی حکومت کے اس رویے کی سرزنش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں معروف سماجی کارکن بلال نورانی بھی آواز اٹھا چکے ہیں اور معروف صحافی عامر صابری سمیت کئی صحافی ودانشور بھی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن سبھی آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہیں۔ مولانا سیف عباس کہتے ہیں کہ امن پسند اور سیکولرزم میں یقین رکھنے والے لوگ حکومت سے مایوس ہیں لیکن انہیں عدلیہ پر مکمل اعتماد و یقین ہے۔ سیاسی ایوانوں میں بھلے ہی ان کی آواز نہ سنی جائے لیکن عدالت میں انہیں انصاف ضرور ملے گا۔