بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے پشتون آباد میں قائم مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نیتجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 20 افراد زخمی ہوگئے۔
ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق دھماکا نمازِ جمعہ کے وقت ہوا جس کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو فوری طور پر کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کرنا شروع کردیا۔
دھماکا اتنا زوردار تھا کہ پورا علاقہ لرز اٹھا تاہم حکام نے دھماکے کی نوعیت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا۔
دھماکے کے فوری بعد ریسکیو اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور سیکورٹی اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لےکر شواہد اکٹھے کرلیے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ نماز جمعہ شروع ہونے سے کچھ دیر قبل دھماکا ہوا، انہوں نے کہا کہ دھماکے میں دو افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ کا کہنا تھا کہ 618 مساجد میں سے 100 مساجد کو سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے، پورے شہر میں 1500 کے قریب سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
بم دھماکے پر اعلیٰ حکومتی اور سیاسی شخصیات نے سخت مذمت کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا اور جاں بحق افراد کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور زخمیوں کے لیے دعائے صحت کی۔
اسپیکر اور نائب اسپیکر قومی اسمبلی نے دھماکے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مسجد اور دیگر عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں ان کا کسی مذہب سے ہی نہیں بلکہ انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی مسجد میں ہونے والی دہشت گردی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رمضان جیسے مقدس ماہ اور جمعہ کے روز مسجد میں دھماکا کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔
انہوں نے ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی واقعے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عوام کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
انہوں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ مبارک ماہ کے مبارک دن بے گناہ افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے سخت سزا کے مستحق ہیں
وزیراعلیٰ بلوچستان نے شہر بھر میں سیکیورٹی اقدامات کو مذید موثر بنانے کی ہدایت کی۔
رمضان المبارک میں دہشت گردی کا پانچواں واقعہ
خیال رہے کہ 6 مئی کو ماہ رمضان کے آغاز سے اب تک ملک میں ہونے والا دہشت گردی کا یہ پانچواں واقعہ ہے۔
دھماکے کے بعد زخمیوں کو فوی طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا—تصویر بشکریہ ٹوئٹر
اس سے قبل 13 مئی کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن کی مِنی مارکیٹ میں پولیس موبائل کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 4 اہلکار شہید اور 2 اہلکاروں سمیت 9 افراد زخمی ہوئے تھے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے جانی نقصان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زخمیوں میں 2 پولیس اہلکاروں کے علاوہ 7 شہری بھی شامل ہیں, دھماکے کے لیے ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سڑک کنارے نصب موٹر سائیکل میں نصب کی گئی تھی۔
اس سے دو روز قبل بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر میں فائیو اسٹار ہوٹل ’پرل کانٹیننٹل‘ پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں نیوی کا ایک اہلکار اور 4 سیکیورٹی گارڈز شہید جبکہ 6 افراد زخمی ہوئے تھے، تاہم سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی میں 3 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔
قبل ازیں 8 مئی کو لاہور میں داتا دربار کے باہر خودکش دھماکے میں 4 پولیس اہلکاروں اور ایک سیکیورٹی گارڈ سمیت 10 افراد جاں بحق جبکہ 30 افراد زخمی ہوئے تھے۔
پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ دھماکا داتا دربار کے گیٹ نمبر 2 پر ایلیٹ فورس کی گاڑی کے قریب ہوا جس میں پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا۔
اسی روز بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے شہر چمن میں قبائلی رہنما ولی خان اچکزئی گاڑی کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 2 محافظوں سمیت جاں بحق ہوگئے تھے۔
حکام نے کہا تھا کہ ولی خان اچکزئی اپنے دفتر سے گھر جاتے ہوئے نشانہ بنے جبکہ دھماکے میں قبائلی رہنما کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
واضح رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہوا ہے، 12 اپریل کو کوئٹہ ہی کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں قائم سبزی منڈی میں دھماکے سے 20 افراد جاں بحق اور 48 افراد زخمی ہوئے تھے۔
دہشت گرد تنظیم داعش کی نیوز ایجنسی ’عماق‘ نے ذمہ داری قبول کرنے کی تصدیق کی تھی،عماق نیوز ایجنسی کی جانب سے حملہ آور کی تصویر اور نام بھی جاری کیے تھے۔
26 مارچ کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران لیویز اہلکاروں پر حملے کے ماسٹرمائنڈ سمیت 4 مبینہ دہشتگردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔
اس سے قبل 17 مارچ کو ڈیرہ مراد جمالی میں ریل کی پٹڑی پر ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جعفرآباد ایکسپریس کی بوگیاں ٹریک سے اترگئی تھیں جس کے نتیجے میں ماں بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے تھے۔
11 مارچ کو کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی میں پولیس کے محکمے انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) کی موبائل کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 4 اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔