۔ یہ بات سابق چیف الیکشن کمشنر نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 96 ویں یوم تاسیس کی تقریب خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مسلم پرسنل لا کے سلسلہ میں ملک بھر میں جاری بحث کے درمیان سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے اسلام کو جمہوری مذہب قرار دیا۔
اس یونیورسٹی سے سوشل مارکیٹنگ کے موضوع پر دنیا میں پہلی بار پی ایچ ڈی کرنے والے جامعہ کے سابق طالب علم مسٹر قریشی نے کہا کہ اسلام جمہوری مذہب ہے اور اس میں عورتوں کو برابری کے جتنے حقوق دیے گئے ہیں اتنے کسی بھی مذہب میں نہیں ہیں. 1400 سال پہلے اسلام نے عورتوں کو جائیداد کا حق دیا جو کسی مذہب میں نہیں دیے گئے۔ مسٹر قریشی نے کہا کہ اسلام نے عورتوں کو اپنی شناخت بنائے رکھنے کا بھی احترام کیا ہے جب کہ دوسرے مذہب میں شادی کے بعد نام تبدیل کرنے کی اجازت ہے، اسلام میں عورت شادی کے بعد بھی اپنا نام برقرار رکھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس کے بعد بھی لوگ سوچتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی عورتوں کو دبا کر رکھتے ہیں تو ہمیں اس پر سوچنا چاہئے۔
مہمان خصوصی کے طور پرشرکت کرنے والے مسٹر قریشی نے تسلیم کیا کہ مسلم پرسنل لا میں بہتری ہونا چاہئے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلم پرسنل لا میں کوئی بہتری اوپر سے مسلط نہیں جانا چاہئے۔ بلکہ مسلم معاشرے کے اندر سے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم معاشرہ تعلیم کے میدان میں کافی پسماندہ ہے۔ اتنا پیچھے تو دلت اور بدھ مت بھی نہیں ہیں۔ اس لیے تعلیم کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا اور بغیر کسی تخصیص کے مرد عورت پر فرض کیا گیا ہے لیکن وہ مسلم طبقہ کو اس میدان میں کیوں پیچھے ہے اس پر غور کیا جانا چاہئے۔
اس سے قبل یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (یو جی سی) کے چیرمین وید پرکاش نے کہا کہ یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے معاشرے کی امید کے مرکز ہوتے ہیں اور جب بھی معاشرے میں کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو وہ ہی راستہ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف سے الہ آباد یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ادارے نہ صرف رواداری اور انسانیت، نظریہ کو اروگ دیتے ہیں بلکہ سچائی کی حفاظت کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی طالب علم تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لئے آتا ہے تو والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پڑھیں گے تو خاندان کا درجہ معاشرے میں بلند ہوگا اور گھر کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی اور میرا بچہ ایک قابل انسان بنے گا۔ انہوں نے طالب علموں سے نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے خواب شر’مند تعبیر نہ ہوں تو وہ اپنا راستہ بدلیں لیکن اپنا اصول تبدیل نہ کریں اور زندگی بھر پڑھنے سیکھنے کی خواہش رکھیں۔ انہوں نے کامیابی کے لئے مستقبل مطالعہ کو لازم قرار دیتے ہوئے کہاکہ کامیابی کے لئے شارٹ کٹ نہ اپنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اداروں کو بھی کورس تحقیق اور تحقیق اور مہارت کی ترقی کے بارے میں بھی خود احتسابی سے کام لینا چاہئے۔انہوں نے جامعہ کے 96 سال کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اتنے برسوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا اس پر سوچنا چاہئے۔
وائس چانسلر طلعت احمد نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں ترک تعلیم سنگین مسئلہ ہے۔ اسی کے پیش نظر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ترک کرنے والے سو طلبہ کو منتخب کیا ہے خواہ وہ اسکول کے ڈراپ آوٹ ہوں یا مدارس کے ان کو برج کورس کراکے مین اسٹریم لانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سال 76 طلبہ کامیاب ہوکر مختلف تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برج کورس کے طلبہ ہنر کی تعلیم بھی دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ 2020میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا صد سالہ جشن ہوگا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ حکومت ہند اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی مدد سے جامعہ کو اس مقام تک لے جائیں گے جو بانیان جامعہ نے دیکھا تھا۔انہوں نے کہاکہ ارد گرد کی مسلم خواتین کو مرکزی دھارے سے منسلک کرنے کے لئے اپنی مدد آپ گروپ بھی قائم کیا ہے اور یہ گروپ اب یونیورسٹی میں کینٹین بھی چلا رہا ہے۔ تقریب میں وائس چانسلر شاہد اشرف رجسٹرار اے پی صدیقی (آئی پی ایس) اور ڈین تسنیم مینائی بھی موجود تھی۔
اس سے پہلے جب مسٹر قریشی اورڈاکٹر پرکاش احاطے میں آئے تو این سی سی کے طالب علموں نے انہیں روایتی طور پر گارڈ آف آنر پیش کیا۔ تین روزہ تعلیمی میلے میں طلبہ اور عوام کے دلچسی کے کئی موضوع ہیں جیسے بیت بازی’ مشاعرہ’فلم اسکریننگ وغیرہ۔ اس تعلیمی میلے کو وائس چانسلرپروفیسر طلعت نے 2014 میں دوبارہ شروع کرایا ہے۔افتتاحی تقریب کا اختتام قومی ترانہ سے ہوا۔