راجہ محمد امیر محمد خان (سلیمان میاں) محمود آباد و بلہیرہ آج علی الصبح اس فانی دنیا کو الوداع کہہ کر انتقال کر گئے۔
راجہ صاحب کا انتقال انکی رہائیش گاہ محمود آباد ہاوس قیصر باغ لکھنومیں تقریبا دو ببجےصبح ہوا÷وہ عرصہ دراز سے علیل تھے اور بالا خر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ ١٩٤٣ میں راضہ صاحب کی ولادت ہوئی تھی اور عرصہ دراز تک وہ سرکاری ظلم و زیادتی کے خلاف نبرد آزما رہے۔انکی املک کو اس لئے بہ حق سرکار ضبط کر لیا گیا تھا کہ انکے والد پر الزام تھا کہ انہوں نے تقسیم ہند میں شرکت کی تھی اور اسی لئے انکی ساری املاک کو دشمنوں کی جائداد کے زمرے میں رکھ دیا گیا تھا۔
مگر راجہ صاحب نے35 سال سے زیادہ عرصہ تک قانونی جنگ لڈی اور انجام کار ملک کی سپریم کورٹ نے انکے حق میں جائداد کو واگزار کیا اور کہا کہ انکے والد کی املاک کے وارث راجہ محمد امیر محمد خان ہیں،مگر بی جے پی سرکار نے پارلیمان میں قانون بنا کر انکی جائداد کو حقدار تک نھیں پہنچنے دیا۔قلعہ محمود آباد کی زیادہ تر املاک وقف سے متعلق ہے اور انکا اندراج شیعہ وقف بورڈ میں ھے۔
راجہ محمود آباد انتہائی مہذب،متمدن اور ادبی شخصیت کے مالک تھے انکو ایسٹرو فیزکس میں مہارت حاصل تھی،لاتعاد اشعار،انکی زبان پر رہتے تھے، گفتگو کا ایک خاص لہجہ اور نشست و برخاست کا ایک منفرد انداز ملاقات کرنے والوں کا دل چھو لیتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں انکا کوئی ثانی نہیں تھا اور گھنٹوں انکے کلام میں عقیدت مندان محو رہتے تھے۔متعدد زبانوں پر انکو بیکوقت عبور حاصل تھا عربی و فارسی انکی مادری زبان جیسی تھیں۔دنیا کے زیادہ تر ممالک کا سفر کر چکے تھے اور انکو ان مقامات کی تاریخ اور جغریفیہ سے کافی لگاو تھا۔
سیاسی میدان میں راجہ صاحب دو بار کانگریس کے ٹکٹ سے محمود آباد کے ایم ایل اے منتخب ہوئے اور عوامی خدمت کی۔ ریاست محمود آباد میں بھی انکو بہت مقبولیت حاصل تھی مقامی شہری بھی ان سے والہانہ محبت کرتے تھے۔
کانگریس کے سابق ایم ایل اے راجہ محمود آباد محمد۔ امیر محمد خان کا تعلق سیتا پور ضلع کی محمود آباد اسمبلی سیٹ سے دو بار کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے رہے۔ دشمن کی جائیداد کے معاملے کی وجہ سے وہ سرخیوں میں آیا۔ اس نے کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور یہاں کے انسٹی ٹیوٹ آف آسٹرونومی میں مہمان پروفیسر رہے۔
سماجی اور ادبی دنیا سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ آج صبح ان کے بیٹے پروفیسر۔ علی خان نے اپنے انتقال کی معلومات فیس بک پیغام کے ذریعے شیئر کی۔ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے ٹویٹ کے ذریعے راجہ محمود آباد کے انتقال پر غم کا اظہار کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔
ملکیت کا تنازع 1962 سے چل رہا تھا۔
۔
بھارت چین جنگ کے بعد مرکزی حکومت کی توجہ ان جائیدادوں کی طرف مبذول ہوئی جو ان لوگوں کی تھیں جو پاکستان چلے گئے تھے۔ ایسی جائیدادوں کے حوالے سے بنائے گئے ڈیفنس ایکٹ 1962 کے تحت حکومت نے ریاست محمود آباد کی جائیدادوں کو دشمن کی ملکیت قرار دے کر اپنے تحفظ میں لے لیا۔ سال 1973 میںامیر احمد کے بیٹے راجہ محمد عامر محمد خان نے ان جائیدادوں پر دعویٰ کیا۔
2010 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے اینیمی پراپرٹی ایکٹ میں ترمیم کی اور راجہ کی تمام جائیدادیں کسٹوڈین کے پاس چلی گئیں۔ 7 جنوری 2016 کو نیا آرڈیننس لایا گیا تو سپریم کورٹ نے دشمن کی جائیدادوں کی فروخت پر پابندی لگا دی۔
ایک ہمہ جہت باصلاحیت اور خوبیوں کے انسان تھے، انہوں نے ایک پاکیزہ زندگی گزاری، اور ایسے طرز عمل اور اقدار کی نمائش کی جو جدید دور میں ختم ہو رہی ہیں۔
ایک ادبی مہزب اور بین الاقوامی شہرت کے ماہر فلکیاتی ماہر، تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات یکساں طور پر بے مثال ہیں۔
راجہ صاحب کی تدفین محمود آباد میں واقع کربلا میں ایک بڑے سوگوار مجمع کی موجودگی میں ہوئی۔ تدفین سے قبل مسلمانون کے دو مسالک شیعہ اور سنی کے علما نے نماز جنازہ ادا کی۔
https://youtube.com/shorts/zIa0fV0_Y_o