آر ایچ نل دنیا کا نایاب ترین خون کا گروپ ہے جسے ’گولڈن بلڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ 50 برس میں اب تک یہ صرف 43 افراد میں ہی دریافت ہوا ہے۔ دیرینہ سائنسی تحقیق اور خون کی منتقلی کے بعد ہی اس قسم کے خون کی تصدیق ہوئی ہے۔ تاہم اس نایاب خون کے مالک خواتین و حضرات کی زندگی بھی کسی خطرے سےکم نہیں ہوتی کیونکہ اس کا عطیہ کنندہ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
نایاب ترین خون کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ بلڈ گروپ کیسے وجود میں آتے ہیں۔ تمام اقسام کے خون ایک سے سرخ دکھائی دیتے ہیں لیکن خون کے سرخ خلیات (آربی سی) کی سطح پر 342 مختلف اقسام کے اینٹی جِن پائے جاتےہیں۔ یہ مالیکیول (سالمات) خاص قسم کے پروٹین بناتے ہیں جنہیں اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی اینٹی جِن کی موجودگی یا غائب ہونے سے کسی شخص کا بلڈ گروپ ترتیب پاتا ہے۔
342 میں سے 160 اینٹی جِن عام پائے جاتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص میں تمام انسانوں کے مقابلے میں واضح اینٹٰی جن غائب ہوں تو اس کاخون نایاب قرار پائے گا ۔ دوسری جانب کسی شخص میں 99.99 فیصد اینٹی جِن نہ ہوں تو اس کا خون نایاب ترین بلڈ گروپ میں شمار ہوگا۔ تاہم ایک دو اینٹی جن کم ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
اب تک دنیا میں ایسے 43 افراد ہی دریافت ہوئے ہیں جن کا بلڈ گروپ گولڈن بلڈ کہلاتا ہے۔ ایک جانب تو یہ مٹھی بھر لوگوں میں خون کا گروہ ہے تو دوسری جانب سائنسی تحقیق کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کا مطالعہ خون کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
آر ایچ نل بلڈ ماہرین کے نزدیک سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہے لیکن کسی حادثے میں اس کے مریض کو جب خون کی ضرورت ہو تو جان کے لالے بھی پڑسکتے ہیں کیونکہ ان کے خون میں 61 کے قریب آر ایچ اینٹی جن نہیں پائے جاتے۔