لکھنؤ : جموں کشمیر کے پلوامہ میں سی آر پی ایف قافلے پر ہوئے خودکش دہشتگردانہ حملے کے خلاف احتجاج اور شیعہ صوفی مسلمانوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے اتوار کے روز حسین آباد کے گھنٹہ گھر گراؤنڈ میں قومی یکجہتی اجلاس کا انعقاد ہوا۔
راشٹریہ صوفی سنگھ کی جانب سے منعقد اجلاس میں مختلف مذاہب کے علماء اور دانشوروں نے شرکت کرکے دہشتگردی اور پاکستان کے خلاف حملہ بولتے ہوئے دہشتگردی کیلئے فنڈنگ کرنے والے ممالک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس کے دوران ’دہشتگردی مردہ باد، پاسکتان مردہ باد، ہندوستانی زندہ باد، بھارت ماتا کی جے‘ جیسے نعروں سے علاقہ گونجتا رہا۔
اجلاس میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے پلوامہ حملے کے شہیدوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما نے کہا کہ اس اجلاس سے دہشتگردوں اور پاکستان کو پیغام گیا ہے کہ وہ دیکھ لیں کہ ہندوستان کی اقلیتوں میں کتنا غم و غصہ ہے۔
یہ ملک بھگت سنگھ، عبد الحمید، عبد الکلام آزاد جیسے لوگوں کو آئیڈئل ماننے والوں کا ہے۔ پاکستان کے حامی اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے جیسے نعرے لگانے والے دیکھیں کہ لکھنؤ کا مسلمان جس کی پہچان پوری دنیا میں ہے، وہ کس طرح دہشتگردی اور پاکستان کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ شیعہ صوفی کا مجمع دہشتگردی کے خلاف جہاد کا نعرہ دیتا ہے۔ اجلاس میں پاکستان کو انتباہ دیا گیا ہے کہ وہ دیکھ لے کہ ہندوستان ایک ہے اور ذات و مذہب میں تقسیم نہیں ہوا ہے۔
جب دشمن کی ناپاک نظریں ملک کے خلاف اٹھیں گی تو ملک کا بچہ بچہ کھڑا ہوگا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق پروفیسر اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ یہ جلسہ پلوامہ، ایران اور افغانستان کے شہیدوں کیلئے ہمارا فرض اور قرض تھا، ان شہیدوں کا مذہب چاہے جو بھی ہو، اسلام میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک بھی بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی زمین کا جس طرح استعمال ہو رہا ہے وہ شرمناک ہے۔
انہوں نے کہا پاکستان کے یہاں حملے کا مقصد ہندو مسلم یکجہتی اور ملک کے سیکولر کردار پر حملہ ہے۔ جب بھی ضرورت پڑی ہم نے ملک کیلئے قربانی دی۔ یہ زمین ہمارے بزرگوں کی سرزمین ہے، ہمیں ہر چیز برداشت ہے لیکن ماں، ملک، مذہب اور مادر وطن پر حملہ کرنے والوں سے سمجھوتہ نہیں۔
7 ہمیں کسی سے حب الوطنی کی سند کی ضرورت نہیں: خواجہ اجمیر کی درگاہ سے آئے سرور چشتی نے کہا کہ ہمیں کسی سے حب الوطنی کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ یہاں دفن ہیں، اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ صرف کشمیر ہی نہیں کمشیری بھی ہمارے ہیں۔
سرور چشتی نے کہا کہ دہشتگردی تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک یہ نشانزد نہیں ہوگا کہ کون لوگ دہشت پھیلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دیکھے کہ کس نظریہ کے افراد دہشتگردی میں شامل ہیں، یہ دیکھا جائے کہ کون لوگ انہیں مالی مدد فراہم کر رہے ہیں، ایسے لوگوں پر روک لگائی جائے۔ ۲۰۰۷ میں اجمیر کی درگاہ پر دہشتگردانہ حملہ ہوا جس میں ہندو شدت پسند شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی، دہشتگردی ہے اسے رنگ و نسل میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔
اجلاس کے کنوینر مجلس کے علمائے ہند کے جنرل سکریٹری اور امام جمعہ مولانا کلب جواد نقوی نے وزیر اعظم نریند مودی سے کشمیر اور کشمیریوں کے سلسلے میں دئے گئے بیان کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اپنے بیان پر عمل کرکے بھی دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے لیکن ہندوستان کا مسلمان اپنے ملک میں دہشتگردی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے دہشتگردوں سے کسی بھی طرح کی ہمدردی رکھنے والوں کو نشانزد کرکے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سرور چشتی
7 ملک میں پل رہے غداروں پر بھی ہو کارروائی: اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے سوامی سارنگ نے کہا کہ ملک میں پل رہے غداروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔
کولکاتا سے آئے شبیر علی وارثی نے اپنے خطاب میں سعودی عرب کے مدینہ واقع جنت البقیع میں دختر رسولؐ کی مزار کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں حسنین بقائی، کامران چشتی، فراض احمد، واجد علی، اجمل نظامی، معین حسین، غلام کبریا، غلام محیٔ الدین، فیض علی شاہ، عمیر الیاسی، مولانا رضا حسین، مولانا حسین مہدی حسینی، مولانا غلام مہدی خان، مولانا جلال حیدر، مولانا صفدر حسین زیدی جونپوری سمیت دیگر علماء و خانقاہوں کے سجادہ نشین و دانشوروں نے خطاب کرتے ہوئے دہشتگردی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور دہشتگردوں کو بڑھانے میں مدد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔