کسانوں کے ساتھ چوتھے دور کے مذاکرات کے دوران حکومت نے اپنی تجویز میں کہا تھا کہ مکئی، تور، ارہر، اُڑد اور کپاس کی فصل کو حکومت ایم ایس پی پر پانچ سال تک خریدے گی
نئی دہلی: حکومت اور کسانوں کے درمیان چوتھے دور کی بات چیت کے بعد حکومت نے 5 فصلوں کے لیے 5 سال کے لیے ایم ایس پی پر گارنٹی دینے کی تجویز پیش کی، جسے کسانوں نے ٹھکرا دیا۔ کسانوں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اب 21 فروری کو ‘دہلی چلو’ مارچ کریں گے۔
حکومت نے اپنی تجویز میں کہا تھا کہ حکومت پانچ سال تک مکئی، تور، ارہر، اُڑد اور کپاس کی فصلوں کو ایم ایس پی پر خریدے گی۔ این سی سی ایف اور این اے ایف ای ڈی جیسی کوآپریٹو سوسائٹیاں کسانوں کے ساتھ معاہدے کریں گی۔ خریداری پر کوئی حد نہیں ہوگی اور جلد ہی ایک پورٹل تیار ہو جائے گا۔
قبل ازیں، 2020-21 کی کسان تحریک کی قیادت کرنے والے سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے پیر کو حکومت کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے کسانوں کے ایم ایس پی کے مطالبے کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور وہ سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ میں تجویز کردہ ایم ایس پی کے لیے ‘سی-2 پلس 50 فیصد’ فارمولے سے کم کچھ بھی قبول نہیں کریں گے۔ بعد ازاں کسان رہنما جگجیت سنگھ ڈلےوال نے کہا، ’’ہمارے دو فورمز پر (مرکز کی تجویز) پر بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مرکز کی تجویز کسانوں کے مفاد میں نہیں ہے اور ہم اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘
وہیں، میٹنگ کے اختتام پر مرکزی وزیر پیوش گوئل نے کہا کہ کسانوں کے ساتھ بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے کوآپریٹو سوسائٹیوں این سی سی ایف اور این اے ایف ای ڈی کو تجویز دی ہے کہ وہ کسانوں سے ایم ایس پی پر دالوں کی خریداری کے لیے پانچ سالہ معاہدہ کریں۔‘‘ گوئل نے کہا، ’’ہم نے تجویز دی ہے کہ کاٹن کارپوریشن آف انڈیا (سی سی آئی) کپاس کی فصل ایم ایس پی پر خریدنے کے لیے کسانوں کے ساتھ پانچ سالہ معاہدہ کرے گا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : کسان تحریک: مظاہرہ کے دوران پھر ایک کسان کی ہوئی موت، مہلوکین کی تعداد بڑھ کر 3 ہوئی
خیال رہے کہ کسانوں اور حکومت کے درمیان بات چیت کا معاملہ صرف ایم ایس پی پر اٹکا ہوا ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اگر کسانوں کے مطالبات مانے جائیں گے تو خزانے پر تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ کسانوں کا ماننا ہے کہ ان کی کھیتی تاجروں کے ہاتھ دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ عام طور پر ایم ایس پی فصل کی پیداوار کی لاگت سے 30 فیصد زیادہ ہوتی ہے لیکن کسانوں کا مطالبہ ہے کہ اس میں اضافہ کیا جائے۔