ریلائنس جیو نے جمعرات کو مواصلات کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ حکومت ائیرٹیل اور ووڈا – آئیڈیا کے بلیک میل کے سامنے نہ جھکے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق ہی حکومت ان کمپنیوں سے بقایہ وصول کرے ۔
سی او اے آئی کے خط کا حوالہ دیتےہوئے جیو نے کہا کہ سے او اے آئی ائیر ٹیل اور ووڈا – آئیڈیا کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن چکا ہے ۔ ان دونوں کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے سی او اے آئی ٹیلی کام انڈسٹری کی جھوٹی تصویر پیش کررہا ہے ۔
اس سے پہلے منگل کو سی او اے آئی نے حکومت سے ائیرٹیل اور ووڈا – آئیڈیا کو راحت دینے کیلئے خط لکھا تھا ۔ وزیر مواصلات کو لکھے خط میں جیو نے کہا ہے کہ وہ سی او اے آئی کی اس دلیل سے متفق نہیں ہے کہ اگر حکومت نے ان کمپنیوں کی مدد نہیں کی تو ٹیلی کام شعبہ بحران کا شکار ہوجائے گا ۔
جیو نے الزام لگایا کہ سی او اے آئی اپنی بات ثابت کرنے کیلئے دھمکی آمیز لہجہ کا استعمال کررہا ہے ۔ حکومت کو اس طرح کی دھمکیون کے آگے نہیں جھکنا چاہئے ۔
ریلائنس جیو کا کہنا ہے کہ ائیر ٹیل اور ووڈا – آئیڈیا قابل کمپنیاں ہیں اور یہ ہندوستان اور بیرون ممالک سمیت کئی ممالک میں متعدد منافع بخش کاروبار کرتی ہیں ۔ ہندوستان میں ہی ان کمپنیوں نے کافی پیسہ کمایا ہے ۔ اب جب سپریم کورٹ نے بقایہ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے تو انہیں منحرف نہیں ہونا چاہئے ۔ ریلائنس جیو نے مشورہ دیا ہے کہ ادائیگی کیلئے وہ اپنے منافع بخش کاروبار کا کچھ حصہ فروخت کرکے سرکاری بقایہ کو آسانی سے ادا کرسکتی ہیں ۔
خط میں ریلائنس جیو نے الزام لگایا ہے کہ ائیر ٹیل اور ووڈا – آئیڈیا نے اپنے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی توڑا ہے ۔ جب کمپنیوں کو اے جی آر کے بقایہ پر حکومت ، ریگولیٹر اور سپریم کورٹ کا رخ معلوم تھا ، تو کمپنیوں نے بقایہ کی ادائیگی کا پہلے ہی بندوبست کیوں نہیں کیا ۔
اس کے برعکس کمپنیاں اپنے موقف پر ہی بضد رہیں اور اپنے حساب سے حکومت کو ادائیگی کرتی رہیں ۔ مالی حالت خراب ہونے کا دعوی کرنے والی یہ کمپنیاں دراصل اپنے ہی خراب آپریشنل فیصلوں کا شکار ہوئی ہیں ۔
ریلائنس جیو نے سی او اے آئی اور ائیرٹیل و ووڈا – آئیڈیا کے خراب مالی حالات کے بیان کو پوری طرح خارج کردیا ۔ ریلائنس جیو نے الزام لگایا ہے کہ ان کمپنیوں نے ہندوستان میں پیسہ کو کافی کمایا ، مگر نئی سرمایہ کاری میں ٹال مٹول کرتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ کمپنیاں پچھڑی نطر آرہی ہیں ۔ ان کمپنیوں کے خراب کمرشیل فیصلوں کا خمیازہ حکومت کو نہیں بھگتنا چاہئے ۔