اگر ایسی انسانی ایجادات کی بات کی جائے جن میں نقصان کا شائبہ تک موجود نہ ہو اور محض فوائد ہی نظر آتے ہوں تو سائیکل کا نام اس فہرست میں اوپر کہیں جگمگ کرتا نظر آئے گا۔
یہ وہ سواری ہے جس کا سوار ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتا ہے، منزل تو طے ہوتی ہی ہے ساتھ میں ورزش بھی ہوجاتی ہے۔ پہیے کو اردو میں چرخہ بھی کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بائے سائیکل جسے اردو میں عموماً سائیکل ہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے دو چرخہ بھی کہلائی، چونکہ ایجاد ہماری نہیں تھی سو نام رکھنے کا بھی ہمیں حق نہیں تھا اس لیے سائیکل ہی رائج ہوگیا۔
سائیکل کہیے یا دو چرخہ کیا فرق پڑتا ہے۔ 2 پہیوں والی اس جادوئی سواری نے نہ صرف مدتوں ہماری سڑکوں پر راج کیا ہے بلکہ کسی زمانے میں یہ اسٹیٹس سمبل سمجھی جاتی تھی اور صرف صاحبان حیثیت کے ہاں ہی نظر آتی تھی۔ پھر وقت بدلا اور سائیکل ہر ایک کو میسر آگئی۔ سائیکل سے شاید اپنی یہ ‘بے توقیری’ برداشت نہیں ہوئی اور اس نے خود کو ہمارے معاشرے سے غائب ہی کرلیا۔ یوں دو چرخہ، مشینی دوچرخہ یعنی موٹر سائیکل میں تبدیل ہوا اور سابق صدر مشرف کے دور میں جب موٹر سائیکل ارزاں ہوئی تو ہر گھر میں اس کی آمد ہوگئی۔ سائیکل بچوں کا کھلونا بنی، دیوار سے لگی اور پھر کباڑخانے میں بیچ دی گئی۔
ترقی تو ہوئی مگر اس کی قیمت بہت بھاری پڑی۔ پیٹرول کی مانگ میں اضافہ ہوا، امپورٹ بل بڑھا، قرضوں میں اضافہ ہوا، دھوئیں سے ہمارے شہر اور پھیپھڑے بھر گئے، اوزون کی تہہ کا کلیجہ چھلنی ہوا اور بارشیں روٹھ گئیں۔ اب ہم ہیں اور ماتم یک شہر آرزو۔ درجہ حرارت 50 کا ہندسہ عبور کرگیا ہے، شاید انہی حالات کو مدنظر رکھ کر اقوام متحدہ نے 3 جون کو بطور ‘یوم سائیکل’ منانے کا علان کر رکھا ہے تاکہ اس کی اہمیت اجاگر ہو، لوگ دوبارہ سے اس ماحول دوست سواری کی طرف راغب ہوں اور ماحول کو سکھ کا سانس میسر آئے۔ چونکہ ہمارے میڈیا کو اس طرح کی باتوں میں دلچسپی نہیں اس لیے ہمارے ہاں عوام کو اس کا شعور تو دُور کی بات ہے معلومات تک نہیں ہیں۔
ایوان اقتدار میں آنے سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان صاحب سائیکل پر دفتر آنے کی باتیں کیا کرتے تھے اور اس ضمن میں دیگر ممالک کے سربراہان کی مثالیں بھی دیا کرتے تھے۔ عوام الناس کو امید بندھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم صاحب سائیکل پر خراماں خراماں دفتر تشریف لایا کریں گے، لیکن عمران خان صاحب برسر اقتدار آئے تو ان پر عقدہ کھلا کہ وہ سائیکل تو کجا گاڑی پر بھی دفتر نہیں آسکتے، چنانچہ قرعہ فال ہیلی کاپٹر کے نام نکلا اور وہ اس پر وزیراعظم ہاؤس آنے جانے لگے۔ سائیکل پر نہ آسکنے کی وجوہات تو ظاہر ہیں لیکن اگر اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام میں سائیکل سواری کی افادیت کا شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تو بھی خاطر خواہ نتائج کی توقع کی جاسکتی تھی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
اگر سائیکل کی پیدائش یعنی ایجاد کی بات کی جائے تو یہ آج سے کم و بیش 200 برس قبل ایجاد ہوئی اور تب یہ پیڈل کے بغیر تھی۔ 2 پہیوں کی اس مشین کو ایک جرمن کارل فان ڈائس نے تخلیق کیا تھا جب وہ اسے پاؤں سے دھکیلتے جرمنی کی سڑکوں پر نکلے تو لوگ حیرت سے اسے تکتے تھے۔ اسے Hobby Horse بھی پکارا گیا لیکن اس کا باقاعدہ نام ‘ڈرائیسینے’ رکھا گیا۔
1838ء میں اسکاٹ لینڈ کے ایک باشندے نے اس میں تبدیلیاں کیں اور اس میں پیڈلز کا اضافہ ہوا۔ جیسے آج بھی گاؤں دیہاتوں میں اکثر سائیکلیں بغیر بریک کے ہوتی ہیں اور اگلے پہیے کو جوتی کے زور سے روکا جاتا ہے، ایسے ہی ابتدا میں سائیکل بریک کے بغیر ہی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ سائیکل کا پہلا معلوم حادثہ بھی اسکاٹ لینڈ میں ہوا جب ایک صاحب کی سائیکل ایک بچی کو لگ گئی اور انہیں پانچ شلنگ جرمانہ کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں ہوتی رہیں اور آج سائیکل دنیا بھر میں ایک اہم ضرورت کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور یہ کروڑوں کی تعداد میں بنائی اور فروخت کی جاتی ہے۔
ہوائی جہاز کے موجد رائٹ برادران کی ہوا میں اڑان بھرنے کی کہانی تو بعد کا قصہ ہے مگر اس سے پہلے یہ دونوں بھائی امریکی ریاست اوہائیو میں سائیکلوں کی فروخت اور مرمت کی ایک دکان چلاتے تھے۔ اس دکان سے نہ صرف رائٹ برادران کو مالی کشائش حاصل ہوئی بلکہ اس میں سائیکلوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ رائٹ برادران تجربے بھی کرتے تھے جو آگے چل کر اڑان بھرنے میں ان کے کام آئے۔ یہیں انہوں نے وہ مشین ایجاد کی جس نے پہلی اڑان بھری تھی۔
رائٹ برادران 1895ء تا 1897ء یہ دکان چلاتے رہے۔ دکان کی یہ عمارت اب قومی تاریخی ورثہ قرار پاچکی ہے اور یہاں میوزیم قائم ہے جہاں رائٹ برادران سے متعلق یادگار اشیا رکھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمارت کی پیشانی پر اب بھی The Wright Cycle Company لکھا ہوا ہے۔
ہم میں سے کون ہے جس کی بچپن کی یادوں میں سائیکل کا ذخیرہ نہ ہو۔ آس پاس کھیلتے ہم عمر بچوں کو سائیکل پر آتے جاتے دیکھ کر جی للچانا تو گویا عام سی بات تھی۔ کسی طور اس کو چلانے کا ایک موقع پانے کے لیے کتنے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے۔ سائیکل مالک کی خوشامد سے لے کر اس کے کئی ناز اٹھانے پڑتے تب جاکر ایک ‘چکر’ نصیب ہوتا۔ اسکول جانے کی عمر میں سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ اپنی سائیکل ہو جس پر آیا جایا جائے۔ چائنہ کی سائیکلیں اس وقت عام ہوچکی تھیں اور سہراب اور پیکو کمپنی کے سائیکل بھی عام استعمال ہوتی تھیں۔ کسی دن اسکول جانے کا دل نہ کیا تو راستے میں ہی ٹائر پنکچر کرکے گھر لوٹ آنے کی کہانی تو گویا گھر گھر کی کہانی تھی۔
جب سائیکل ہر کس وناکس کے پاس آگئی تو فرق کیسے ہو کہ کون زیادہ رتبے اور حیثیت والا ہے؟ اس کا فیصلہ ڈائنامو والی سائیکلوں سے ہوتا تھا۔ آپ کو ڈائنامو یاد ہے؟ وہی موٹر جسے سائیکل کے پہیے کے ساتھ جوڑا جاتا تھا اور ایک لائٹ سائیکل کی پیشانی پر لگائی جاتی تھی۔ پہیے کی رگڑ سے کرنٹ پیدا ہوتا اور لائٹ جلتی۔ یہ گویا سائیکل کو رات کے اندھیرے میں چلانے کا سامان تھا لیکن یہ ‘عیاشی’ ظاہر ہے ہر ایک کی دسترس میں نہیں تھی۔
عوام الناس کے پاس جو سائیکلیں ہوتی تھیں ان کا نقشہ اردو کے یکتائے روزگار لکھاری پطرس بخاری نے اپنے مضمون ‘مرحوم کی یاد میں’ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
‘آخرکار بائے سائیکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی، اس پر بائے سائیکل خودبخود چلنے لگی لیکن اس رفتار سے جیسے تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونی شروع ہوئیں۔ ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔ چیں، چاں، چوں کی قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پچھلے پہیے سے نکلتی تھیں۔ کھٹ، کھڑکھڑ، کھڑڑ کے قبیل کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔ چر، چرخ، چر، چرخ کی قسم کے سُر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے۔ زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا تھا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی تھی، جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑچڑ بولنے لگتی تھی اور پھر ڈھیلی ہوجاتی تھی۔ پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا اور اس کے علاوہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑ جاتا تھا اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔ مڈگارڈ تھے تو سہی لیکن پہیوں کے عین اوپر نہ تھے۔ ان کا فائدہ صرف یہ معلوم ہوتا تھا کہ انسان شمال کی سمت سیر کرنے کو نکلے اور آفتاب مغرب میں غروب ہورہا ہو تو مڈگارڈوں کی بدولت ٹائر دھوپ سے بچے رہیں گے۔ اگلے پہیے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا جس کی وجہ سے پہیہ ہر چکر میں ایک دفعہ لمحہ بھر کو زور سے اوپر اٹھ جاتا تھا اور میرا سر پیچھے کو یوں جھٹکے کھا رہا تھا جیسے کوئی متواتر تھوڑی کے نیچے مکے مارے جا رہا ہو۔ پچھلے اور اگلے پہیے کو ملا کر چوں چوں پھٹ۔ چوں چوں پھٹ۔۔۔ کی صدا نکل رہی تھی’۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ سائیکلیں تیار ہوتی ہیں اور اس میں چین کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کو سائیکلوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں سائیکلوں کی تعداد گاڑیوں سے زیادہ ہے اور اس کے لیے انتظامیہ مسلسل کوششیں بھی کرتی آرہی ہے جس سے ماحول کو بہت فائدہ ہوا ہے اور اب شہر کی پہچان ہی سائیکل ہے۔ دنیا بھر میں سائیکلوں کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم کو حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد سے زائد حصہ روزانہ سائیکل استعمال کرتا ہے۔
سائیکل سواری کے متعدد فوائد ہیں، اس کی یاری جیب پر بھاری نہیں بلکہ سستی پڑتی ہے۔گوکہ گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ہاں سائیکلوں کی قیمتیں بھی دگنی ہوگئی ہیں لیکن موٹرسائیکل اور گاڑی وغیرہ کی نسبت اب بھی سائیکل بہت سستی پڑتی ہے۔ صرف ایک دفعہ خریدنے کا خرچ، اس کے بعد نہ پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی فکر اور نہ ہی دیگر اخراجات۔ سائیکل صحت کے لیے بھی مفید ہے اور اسے چلانے سے پورے جسم کی ورزش ہوجاتی ہے جبکہ انسان تندرست رہتا ہے۔
سائیکلنگ کو دنیا بھر میں ایک مقبول کھیل کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ 1903ء میں ‘ٹور ڈی فرانس’ کی صورت سائیکلوں کی پہلی اور مقبول عام ریس شروع ہوئی جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اسے دنیا بھر میں کلاسک ریس کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس ریس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا راستہ ہمیشہ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کا اختتام پیرس کی مشہور سڑک شانزے لیزے پر ہوتا ہے۔
موجودہ جناتی ترقی اور صنعت نے جہاں بہت سی آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی ہیں وہیں اس کے نقصانات سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں ہے۔ ماحولیاتی آلودگی موجودہ دنیا کو درپیش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو حکومتوں تک کے لیے درد سر بنا ہوا ہے. جہاں شجرکاری کے ذریعہ اس مسئلے سے کسی حد تک نمٹا جاسکتا ہے وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سائیکلنگ کی ترویج کی جائے۔ یہ ماحول دوست سواری ہے، نہ دھواں چھوڑتی ہے اور نہ ہی کوئی گیس خارج کرتی ہے۔ جیب پر ہلکی بھی ہے اور صحت کے لیے مفید بھی۔
کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں ہر طرف دھواں چھوڑتی بے ہنگم ٹریفک ہے، ذرا تصور کیجیے وہاں اگر شاہراہوں سے یکایک ٹریفک غائب ہوجائے اور اس کی جگہ سائیکلیں چلتی پھرتی نظر آئیں تو کیا ہی خوش کن منظر ہوگا۔ شہر کی آلودہ فضا چند ہی دنوں میں شفاف آئینے کی صورت نکھری نظر آنے لگی گی۔ درجہ حرارت جو نصف سنچری کرنے کو ہے وہ دھڑام سے نیچے آگرے گا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں سائیکل سے دوستی کرنی پڑے گی۔
موٹر سائیکل، کار، بس یہ ناگزیر سواریاں ہیں لیکن جہاں ان کے بغیر کام نکل سکتے ہیں وہاں بھی ہم لوگ انہیں بھگائے پھرتے ہیں۔ سہل پسندی نے ہمیں بہت سے مسائل کا شکار بنا دیا ہے، ان کا حل سستی کو بھگانے میں ہی پوشیدہ ہے۔ اقوام متحدہ نے سائیکل کا دن متعین کرکے توجہ دلانے کی کوشش کی ہے، اس کوشش کو تحریک میں بدلنے کی ضرورت ہے۔
تو اگر آپ کی زنگ آلود سائیکل کسی کونے میں پڑی ہے تو اس کی جھاڑ پونچھ کیجیے، تیل پانی دیجیے اور اسے کام میں لائیے۔ یقین کریں یہ فیصلہ آپ کو شاندار نتائج دے گا۔