دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہی کوئی نہ کوئی بحران یا مسئلہ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ملک عالمی سطح پر توجہ کر مرکز رہتا ہے۔ کہیں اندرونی اختلافات ہیں تو کہیں سیاسی محاذ آرائیاں، کہیں جنگ کا میدان گرم ہے تو کسی خطے میں قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی نے اسے دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا۔ کسی علاقے میں معاشی بحران ہے تو کچھ علاقے کمزوروں پر ظلم و ستم، انسانیت سوز سلوک اور صاحبان اقتدار کی شہ پر ہونے والی غنڈا گردی کی تصویر پیش کررہے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین تو دنیا بھر میں انتہائی حساس موضوع بنے ہوئے ہیں اور ان پر ہر بڑے عالمی پلیٹ فارم پر بات بھی ہوتی ہے لیکن میانمر (سابق برما) کے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کا عالم یہ ہے کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن ان کے لیے آواز عالمی سطح پر اس طرح نہیں اٹھائی جارہی جس طرح اٹھائی جانی چاہیے۔ روہنگیا مسلمانوں کا سرکاری طور پر قتل عام کیا جارہا ہے لیکن عالمی برادری کو تو چھوڑیں مسلم امہ بھی اپنے اپنے مسائل میں اتنی پھنسی ہوئی ہے کہ وہ ان مظلوموں کے لیے صحیح طرح صدائے احتجاج بھی بلند نہیں کرپا رہی
پچھلے کئی سال سے آتش پرستوں نے روہنگیا مسلمانوں کی جس طرح نسل کشی کی ہے ایسی مثال کہیں نہیں ملتی پر نہ تو اقوام متحدہ کا کوئی زور ہے اور نہ مسلمانوں کا جذبہ۔ میانمر میں حالیہ دنوں میں سرکاری فوج نے ظلم و درندگی کی انتہا کردی ہے۔ صرف ایک ہفتے کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے اکثریتی علاقے اراکان میں ڈھائی ہزارسے زائد مسلمان قتل کیے جاچکے ہیں، جب کہ ہزاروں زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ ظلم و زیادتی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے درجنوں مکانات اور دیگر املاک کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے، جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میانمر کے حکم رانوں اور وہاں رہنے والی دیگر قومیتوں نے روہنگیا مسلمانوں کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمر پر ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان سے نفرت کا اظہار مختلف مواقع پر مظالم کرکے کیا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو روہنگیا مسلمان اراکان میں 16 ویں صدی سے آباد ہیں۔ ان کی کئی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں لیکن تاحال ان کو حقوق ملے نہ شناخت دی گئی اور نہ ہی انہیں اپنایا گیا۔ ان ہی ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے کہ آج روہنگیا مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سب سے قابل مذمت کردار آنگ سان سوچی کا رہا ہے۔ جب وہ خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی تھیں تو ہر انٹرویو میں اور اپنے ہر خطاب میں وہ انسانی حقوق کی پاس داری، ظلم و ستم کے خاتمے، مظلوموں کو ان کے حقوق دلانے کی بڑی بڑی باتیں کرتی تھیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے بہیمانہ ظلم و ستم پر آنگ سان سوچی نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ اب لگتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر وہ انسانی حقوق کی پاس داری اور مظلوموں سے انصاف کا سبق بھول گئی ہیں یا دہرانا نہیں چاہتیں۔ میانمر کی حکومتوں نے جبرو تشدد کے ذریعے ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی اور سیکڑوں روہنگیا مسلمان مختلف اوقات میں ہلاک کردیے گئے، سیکڑوں زخمی کیے گئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے کیوں کہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ملکوں کو شاید روہنگیا مسلمانوں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر بالآخر امریکا اور اقوام متحدہ کو ہوش آہی گیا اور چند دن قبل امریکی محکمہ خارجہ نے صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اصل حقائق کو جاننے کی کوشش کررہے ہیں جو اطلاعات آرہی ہیں وہ اچھی نہیں حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے امریکی سفیر نے حکومتی اہل کاروں سے ملاقات کی اور صورت حال کو بہتر کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے علاقے میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی خوں ریزی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلامی ملکوں کو بھی روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا بھرپور اور فوری نوٹس لینا چاہیے، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس خطے کی بات ضرور کریں اور اس کے لیے آواز لازمی اٹھائیں جس کے باسی صرف مسلمان ہونے کے ’’جرم‘‘ میں حکومتی مظالم کا شکار ہیں۔
اگر تمام اسلامی ممالک متحد ہوکر اقدامات کریں تو میانمر کی حکومت روہنگیا مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم اور زیادتیوں کا سلسلہ روک سکتی ہے ورنہ روہنگیا مسلمانوں کا ارزاں خون بہتا ہی رہے گا۔