نیپیداؤ؛ میانمر کی عوامی رہنما آنگ سان سوچی دربدر روہنگیا مسلمانوں کی آہ لگ گئی اور عدالت نے انہیں 4برس کی سزائے قید سنا دی۔ سوچی پر الزامات تھے کہ انہوں نے تشدد پر اکسایا اور کورونا قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی۔میا نمر میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کے خلاف یہ پہلا عدالتی فیصلہ ہے۔
سوچی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انہیں اور ان کے دیگر سیاسی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی کیے گئے۔ فوجی عدالت نے سوچی کو 4سال کی سزائے قید سناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آمر حکومت کے خلاف عوام کو تشدد پر اکسایا۔ سوچی کے ساتھ سابق صدر ون مینٹ کو بھی انہی الزامات کے تحت 4برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں سیاسی رہنماؤں کو ابھی تک جیل منتقل نہیں کیا گیا اور انہیں اپنے موجودہ حراستی مقام سے ہی عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔ عدالتی فیصلہ جمعرات کو سنایا جانا تھا، لیکن اسے موخر کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یکم فروری 2021ء کے روز میانمر میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ فوج نے گزشتہ برس نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کیا گیا۔
آنگ سان سوچی کو دیگر الزامات کا سامنا بھی ہے،جن میں گزشتہ برس کے عام انتخابات میں دھاندلی، مواصلاتی نظام میں چھیڑ چھاڑ‘ رشوت خوری شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوچی کو ان مقدمات میں عمر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ ماضی میں بھی سوچی فوجی حکومت کی وجہ سے اپنی زندگی کے 15برس نظر بندی میں گزار چکی ہیں۔ فوجی حکومت کا الزام ہے کہ سوچی نے 6لاکھ ڈالرکی رقم اور 11.4کلو گرام سونا غیر قانونی طور پر وصول کیا۔ فروری میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت لیگ فارڈیموکریسی نے مبینہ طور پر عالمی اداروں کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ میانمار کی فوجی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔
اس پیش رفت کے تناظر میں فوجی جنتا نے ان پر تشدد پر اکسانے کا الزام عائد کیا۔ فروری کے بعد سے اب تک مختلف پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں 1200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ فوجی حکومت 10ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ دوسری جانب برطانیہ نے سوچی کی سزا کی مذمت کی ہے۔