ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا بہیمانہ قتل امریکا کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ بات انہوں نے ایرانی کابینہ کے اجلاس کی ملکی سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی کارروائی کے دوران کہی۔
ایران کے صدر روحانی نے اپنے بیان میں کہا،’’میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی ملک کے لیے اس قسم کی کارروائی کرنا امریکا کی مدد کے بغیر ممکن ہو سکتا ہے۔ خاشقجی کے قتل سے پہلے یہ سوچنا بھی ناممکن تھا کہ اس دور میں بھی ایسی ظالمانہ کارروائی اتنے منظم طریقے سے کی جا سکتی ہے۔‘‘
روحانی کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسن سفاکانہ قتل کی منصوبہ بندی ایک ادارے نے کی تھی۔ ایرانی صدر نے سعودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا،’’ وہ قبائلی گروپ جو اس وقت سعودی عرب پر حکمران ہے محدود سکیورٹی پر انحصار کرتا ہے اور یہ سیکیورٹی مارجن امریکا کی حمایت ہے۔ یہ سپر پاور امریکا ہی ہے جو ریاض حکومت کی اعانت کر رہا ہے۔‘‘
سعودی حکام کی جانب سے ہفتہ 20 اکتوبر کو یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ سعودی حکومت کے نقاد صحافی جو کئی روز سے لاپتہ تھے، استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں دو اکتوبر کو مارے گئے تھے۔ قبل ازیں سعودی حکام کا یہی کہنا تھا کہ جمال خاشقجی قونصل خانے میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے واپس لوٹ گئے تھے۔
جمال خاشقجی امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ سعودی حکومت کو خاشقجی کے قتل کے معاملے پر شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ منگل کے روز امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کو جس انداز میں چھپانے کی کوشش کی گئی، وہ اپنی نوعیت کی بدترین مثال ہے۔
ایران خطے میں اپنے حریف ملک سعودی عرب پر عالمی پیمانے پر ہونے والی اس تنقید پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور بحرین نے پاسداران انقلاب ایران کو گزشتہ روز دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سعودی نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے ساتھ ہی ایران کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی عبدالرضا شہلائی کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پاسداران انقلاب کے بریگیڈیئر جنرل اسماعیل کوسری نے کہا،’’ایسے اقدمات اٹھا کر سعودی حکومت ملکی اور بین القوامی سطح پر لوگوں کی توجہ خاشقجی کے قتل سے ہٹانا چاہتی ہے۔‘‘