لکھنؤ کے امین آباد کی رہائشی رقیہ بانو نے تین سال قبل یشوردھن شریواستو سے تبدیلی مذہب کے بعد شادی رچائی مگر اب یشوردھن شریواستو نے مسکان بن چکی اس خاتون کو در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ رقیہ کی حالت اب نہ گھر کی رہی اور نہ گھاٹ کی، اس پر المیہ یہ کہ اب دونوں ہی کنبہ اس سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔
رقیہ کے مطابق شادی کے دن ہی اس کے رشتہ میں دراڑ پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی، بقول اس کے دراڑ کی وجہ سسرال والوں کا رویہ تھا۔ مسکان کے مطابق اس کے سسرال والوں نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اسے انسانی نہیں کہا جا سکتا۔
رقیہ کی ساس اسے کچن کے برتن اور گھر کا سامان بھی نہیں چھونی دیتی تھیں اور کہتی کہ تم مسلمان ہو اور تمہارے چھونے سے گھر کی چیزیں اشدھ (ناپاک) ہو جائیں گی۔
دراصل مسکان کے ہندو بن جانے پر اس کے سسرال والوں کو یقین نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ”یہ مسلمان ہی ہے اور یہ کبھی اپنا مذہب ترک نہیں کر سکی۔ ہم شریواستو ہیں، ہمیں اپنے بیٹے کی شادی اپنے مذہب اور برادری میں ہی کرنی چاہیے تھی۔”
مسکان بننے سے قبل رقیہ لکھنؤ کے ہی ایک سول سروسز انسٹی ٹیوٹ میں پی سی ایس جے کی کوچنگ دیتی تھی۔ یشوردھن وہیں کوچنگ سینٹر کے مالک کی معرفت وہاں داخلہ لینے آیا تھا اور یہیں پر دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ شادی کرنے کی بات چلی تو شرط تبدیلی مذہب تک پہنچ گئی۔
رقیہ نے کہا کہ یشوردھن نے شادی کے لئے اس پر دباؤ بنایا اور ایک دن نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے چاقو سے اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لی اور واٹس ایپ پر میرے پاس تصویر بھیجی۔ رقیہ کے مطابق ”یشوردھن نے دھمکی دی کہ اگر مجھ سے شادی نہیں کی تو میں خود کشی کر لوں گا۔ اس کے بعد میں نے شادی کر لی اور اپنا مذہب بھی تبدیل کر لیا۔”
کیا مذہب تبدیل کرنے کے لئے کوئی دباؤ بنایا گیا تھا، اس سوال کے جواب میں رقیہ نے کہا ”میں نے یشوردھن کے کہنے پر ہی مذہب تبدیل کیا تھا، یشوردھن کا کہنا تھا کہ اگر تم مذہب تبدیل کر لیتی ہو تو میرے خاندان کے ساتھ گھلنے ملنے میں آسانی رہے گی۔
میں نے بھی سوچا کہ زندگی تو سسرال والوں کے ساتھ ہی گزارنی ہے۔ میرے خاندان کے لوگ تبدیلی مذہب سے خوش نہیں تھے اور شادی کرنے کے بعد میرے پاپا، بھائی اور بہنوں نے مجھے بات کرنی بند کر دی تھی۔”
رقیہ کا کہنا میں کہ میں لگاتار اپنی والدہ سے بات کرنے کی کوشش کرتی رہی، شادی کے چھ مہینے بعد میرے والد کو میرے فیصلہ کو قبول کرنا پڑا اور انہوں نے تقریب کا انعقاد کیا۔ یشوردھن شریواستو کو میرے خاندان نے وہی درجہ دیا جو ایک داماد کو حاصل ہوتا ہے۔
شادی کے بعد رقیہ کی زندگی اجیرن بن گئی۔ اس کے بقول ”ساس کہتی کہ میں کسی ‘ایس سی’ لڑکی کو تو اپنے بیٹے کی بہو بنا سکتی ہوں لیکن تمہیں (مسلمان) نہیں۔ مجھے گھر کا سامان چھونے نہیں دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے پر بھی گالیاں دی جاتی تھیں۔
مجھے صرف اپنے شوہر کے ساتھ سونے کی اجازت تھی، جس پر میں سوچتی تھی کہ کیا میں کوئی استعمال کی چیز ہوں۔ میں مسلمان سے ہندو بن چکی ہوں پھر بھی مجھے گھر میں ہو رہی پوجا میں شامل نہیں ہونے دیا جاتا تھا۔ اگر میں مندر میں بیٹھ جاتی تو میری ساس مجھے وہاں سے یہ کہہ کر اٹھا دیتی کہ یہ ناپاک ہو جائے گا۔
مسکان کا کہنا ہے، ”میں پوری طرح برباد ہو چکی ہوں۔ میرے میکے والے مجھے ہندو کہتے ہیں اور لعن تعن کرتے ہیں کیونکہ میں نے ایک ہندو سے شادی کی ہے، کوئی مجھ سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔
میں نے کسی طرح اپنی ماں کو راضی کر کے ایک برامدے میں اپنا بستر لگایا ہے اور گھر والوں سے کہا ہے کہ میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی، مجھے تھوڑا وقت چاہیے، مضبوط ہو جاؤں پھر اپنے لئے انصاف کی لڑائی لڑوں گی۔”
مسکان کا کہنا ہے کہ ”جو میرے ساتھ ہوا وہ قانوناً جرم ہے۔ میرے شوہر نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ میرے والدین کہتے ہیں کہ میں ہندو ہوں اور سسرال والے کہتے ہیں کہ میں مسلمان ہوں۔ میں یہ ثابت کرنے کی بھی لڑائی لڑ رہی ہوں کہ میں کیا ہوں۔ لیکن میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا انصاف کا ترازو کسی کا مذہب دیکھ کر انصاف کرتا ہے۔”
مسکان کا سوال ہے کہ میرے جیسا معاملہ اگر کسی ہندو لڑکی کا ہوتا تو کیا اس وقت بھی یہی ہوتا؟ اس کا کہنا ہے کہ چوںکہ میں مسلمان تھی اور میرا شوہر ہندو اس لئے پولیس نے میری شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
ایڈوا نامی تنظیم لکھنؤ کی رقیہ عرف مسکان کی انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایڈوا کی مدھو گرگ کہتی ہیں، ”اگر مذہب میں شادی کرنے والے جوڑوں کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس معاملہ میں بھی وہی دقتیں ہیں۔
ہندو اور مسلم لڑکیاں یکساں طور پر محبت کی شادیاں کرتی ہیں مگر حکومت اس کو ‘لو جہاد’ کا نام دے کر ایک فریق کی ہی بات کرتی ہے، ہمارے پاس دونوں مذہب کی متاثرہ خواتین آتی ہیں۔”