امریکا، کینیڈا اور برطانیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی خفیہ اداروں کے لیے کام کرنے والے ہیکرز گروپ نے دنیا کے متعدد ممالک کی دوا ساز کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کے سسٹمز تک رسائی حاصل کرکے کورونا ویکسین سے متعلق معلومات چرانے کی کوشش کی۔
برطانیہ کے نیشنل سائبر سیکیورٹی سینٹر (این سی ایس سی) نے 16 جولائی کو اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ متعدد ممالک سے کورونا ویکسین اور علاج کی معلومات کو چرانے کی کوشش کرنے والا ہیکرز گروپ روس کے خفیہ ادارے کے لیے کام کرتا ہے۔
روس پر یہ الزام ایک ایسے وقت میں لگایا گیا جب کہ ایک دن قبل ہی روس نے کورونا سے متعلق محفوظ ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
روسی حکومت نے 15 جولائی کو دعویٰ کیا تھا کہ تیار کی گئی ویکسین کے ابتدائی تحقیقاتی مرحلے میں 18 رضاکاروں پر تجربہ کیا گیا اور خوش قسمتی سے وہ کامیاب رہا اور تمام رضاکار صحت مند ہیں۔
روسی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ رضاکاروں میں ویکسین کے استعمال سے اینٹی باڈیز بنیں اور ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوا۔
حکام نے تیار کردہ ویکسین کو مریضوں پر استعمال کرنے کے لیے محفوظ قرار دیا تھا اور روسی حکومت کے مذکورہ دعوے کے ایک روز بعد ہی برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے روس پر کورونا سے متعلق معلومات چرانے کی کوشش کا الزام لگایا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق برطانیہ کے نیشنل سائبر سیکیورٹی سینٹر سے امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کی حکومتوں کے مشترکہ بیان میں الزام لگایا گیا کہ روسی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے ہیکرز گروپ (اے ٹی پی 29) جسے کوزی بیئر بھی کہا جاتا ہے، اس نے دنیا کے متعدد ممالک کی میڈیکل تحقیقی اداروں اور دوا ساز کمپنیوں کا کورونا ویکسین سے متعلق مواد ہیک کرنے کی کوشش کی۔
تینوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ ہیکرز کا گروپ یقینی طور پر روسی خفیہ اداروں کے لیے کام کرتا ہے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ہیکرز کے مذکورہ گروہ نے گزشتہ ایک سال کے دوران امریکا، جاپان، چین اور افریقا کے متعدد اداروں کے مریضوں سے لی گئی معلومات کے مواد تک رسائی حاصل کی۔
دوسری جانب روسی خبر رساں ادارے ریا نے اپنی رپورٹ میں صدارتی ہاؤس کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ روسی حکومت نے مذکورہ الزامات کو مسترد کردیا۔
کریملن کے ترجمان کا کہنا تھاکہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا، امریکا اور برطانیہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا روسی ہیکرز نے کورونا ویکسین سے متعلق کوئی معلومات چرائی یا نہیں، تاہم کہا گیا ہے کہ ہیکرز نے معلومات چرانے کی کوشش کی۔
سائبر سیکیورٹی ماہرین کی جانب سے جاری کی گئی مذکورہ ممالک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روسی ہیکرز کا گروہ ابتدائی طور پر کورونا کے مرض اور ویکسین سے متعلق تحقیق کرنے والے اداروں کے ڈیٹا سسٹم میں ایک ای میل بھیج کر مواد کا جائزہ لیتا ہے۔
بعد ازاں ہیکرز مزید تکنیکیں استعمال کرکے ڈیٹا سسٹم میں موجود مواد کو اسکین کرکے ایک اور ای میل کے ذریعے ڈیٹا کو اپ لوڈ کرکے چوری کرتے ہیں۔
اگرچہ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا کی مشترکہ رپورٹ میں روسی ہیکرز کی جانب سے ڈیٹا کو چوری کرنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے، تاہم رپورٹ میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ روسی ہیکرز کہیں سے کوئی مواد چرانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔
خیال رہے کہ امریکی و برطانوی خفیہ اداروں نے رواں برس مئی میں خبردار کیا تھا کہ دنیا کے متعدد ممالک کے خفیہ ادارے کورونا کی ویکسین سے متعلق معلومات چرانے کے لیے متحرک ہوچکے ہیں۔
امریکی خفیہ اداروں نے بتایا تھا کہ دنیا میں کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی معلومات چرانے کے لیے ایک خفیہ سائبر جاسوس جنگ شروع ہوچکی ہے اور ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس جنگ میں برتری حاصل کرے۔
دنیا بھر میں اس وقت 100 کے قریب بائیوٹیک ادارے اور فارماسیوٹیکل کمپنیاں ویکسین بنانے میں مصروف ہیں اور اب تک امریکی اور برطانوی کمپنیوں کو اس ضمن میں اچھی کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔
امریکا، چین، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی، آسٹریلیا، کینیڈا اور اسرائیل سمیت درجنوں ممالک کی ادویات تیار کرنے والی کمپنیاں اور بائیو ٹیک کمپنیاں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی دوڑ میں مصروف ہیں اور عالمی ادارہ صحت کا خیال ہے کہ رواں برس ستمبر تک دنیا میں کورونا کی ویکسین دستیاب ہوجائے گی، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔