کام کی جگہ چھوڑ کر اپنی آبائی ریاستوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کے ارادے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن اب یہ معاملہ مزدور اور کمپنی کا ہےجسٹس اشوک بھوشن، جسٹس سنجے کشن کول، اور جسٹس ایم آر شاہ کی بینچ کچھ کمپنیوں کی عرضیوں پر کل اپنا فیصلہ سنائے گا۔ بینچ نے گزشتہ چار جون کو تمام متعلقہ فریق کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ 12 جون کو اس معاملے میں فیصلہ سنائے جانے تک وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم پر عمل نہ کرنے کے سلسلے میں امپلائر (آجر) کے خلاف کوئی بھی قابل سزا کروائی نہیں کی جا سکے گی۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقوں کو تین دن کے اندر تحریری طور پر اپنا موقف رکھنے کی ہدایت بھی دی تھی۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بینچ کے سامنے دلیل دی تھی کہ جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو اہلکار، کام کی جگہ چھوڑ کر اپنے آبائی ریاستوں کی جانب ہجرت کرنے سے روکنے کے ارادے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن بالآخر یہ معاملہ اہلکاروں اور کمپنی کے درمیان کا ہے اور حکومت اس میں دخل نہیں دے گی۔
مسٹر وینوگوپال نے کہا تھا کہ ڈیزاسٹر مینیجمینٹ ایکٹ کے تحت قومی مجلس عاملہ نوٹیفکیشن جاری کر سکتی ہے کیونکہ متعلقہ قانون میں آفت سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کی ہدایت جاری کرنے کا حق موجود ہے۔
عدالت نے حالانکہ اس بات کے سلسلے میں سوال اٹھائے تھے کہ جب صنعتوں ۔ دھندوں کو بند کرنا پڑا تو انھیں لاک ڈاؤن کی مدت میں پوری تنخواہ دینے کی ہدایت کتنی مناسب ہے؟ جسٹس کول نے کہا تھا کہ وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم کے سلسلے میں انھیں کچھ اعتراضات ہیں۔ اس مدت کے لیے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے غور و خوض کیا جانا چاہیے۔