ممبئی : ہندوستانی سنیما کی دنیا میں سلیل چودھری کا نام ایک ایسے موسیقار کے طور میں یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے نغمات سے ناظرین کے درمیان محب وطن کے جذبے کو بلند کیا سلیل چودھری کی پیدائش 19 نومبر 1923 کو ہوئی تھی ۔
ان کے والد گیانیندر چندر چودھری آسام میں ڈاکٹر تھے۔
ان کا زیادہ تر بچپن آسام میں ہی گزرا تھا۔
بچپن سے ہی ان کا رجحان موسیقی کی جانب تھا اور وہ موسیقار بننا چاہتے تھے ۔
انہوں نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔
سلیل چودھری کے بڑے بھائی آرکیسٹرا میں کام کرتے تھے اور اسی وجہ سے وہ ہر طرح کے آلات موسیقی سے واقف تھے۔
انہیں بچپن سے ہی بانسری بجانے کا بہت شوق تھا اس کے علاوہ انہوں نے پیانو اور وائلن بھی بجانا سیکھا۔
انہوں نے اپنی گریجویشن کی تعلیم کولکتہ کے مشہور بنگاواسي کالج سے مکمل کی۔
اس دوران وہ بھارتیہ جن ناٹیہ سنگھ سے منسلک ہوگئے۔
1940 میں ملک کو آزاد کرانے کے لئےشروع کی گئی مہم میں سلیل چودھری بھی شامل ہو گئے اور اس کے لیے انہوں نے اپنے موسیقی آموز نغموں کا سہارا لیا۔
انہوں نے اپنے ان نغموں کو غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور ان کے ان نغموں نے انگریزوں کے خلاف ہندستانیوں کی جدوجہد کو ایک نئی سمت دی۔
سال 1943 میں سلیل چودھری کے نغمات ’بچارپتی تومر بیچار اور ‘ڈھیو اتچے تارا ٹوٹچے‘ نے آزادی کے دیوانوں میں نیا جوش بھرنے کا کام کیا۔
انگریزی حکومت نے بعد میں ان گانوں پر پابندی عائد کردی۔