جرمنی کے ہیلتھ ریسرچ کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماہرین نے نمک کے استعمال پر مفصل بحث و مباحثے کے بعد کہا ہے کہ جسم میں موجود فاضل نمک انفیکشن یا عفونت کے خلاف جنگ میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔جرمن انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے ماہر کارل لوْڈوش ریش کا کہنا ہے:’’دس سال پہلے نمک کے استعمال کا موضوع ایک علمی بحث کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب ٹیلی وڑن پر آئے روز اس بارے میں کچھ نہ کچھ بتایا جاتا
رہتا ہے۔‘‘نمک کا کیمیائی نام سوڈیم کلورائیڈ NaCl ہے اور اس جرمن ماہر کے مطابق اس اہم معدنی عنصر کے بارے میں ہونے والی ریسرچ کے نتائج نہایت واضح ہیں۔ کارل لوْڈوش ریش کے بقول سائنسدان نمک کے نقصانات کے بارے میں تو بہت شوق اور انہماک کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں تاہم ان کی بحث اکثر معروضی نہیں ہوتی اور کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر یہ سائنسدان محض اپنے مفروضات کو مانتے ہیں اور دوسروں کے دلائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک نمک سے متعلق جو معلومات پائی جاتی ہیں اْن کی روشنی میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی، طبی ماہرین کو ابھی ایک عرصے تک اس موضوع پر کام کرنا ہوگا۔گزشتہ صدیوں میں نمک کو ایک گراں قدر شے تصور کیا جاتا رہا ہے۔ انسان نمک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ جسم میں پائے جانے والے سیال یا رقیق مادوں کے توازن کو برقرار رکھنے، ہڈیوں کی ساخت، اعصابی نظام اور ہاضمے کے لیے نہایت مفید اور ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کے جسم میں دو سو گرام نمک موجود ہوتا ہے، جسے مثلاً پسینے یا پھر آنسوؤں کی صورت میں چکھا بھی جا سکتا ہے۔جرمن اور امریکی ماہرین نمک کی افادیت کی اس فہرست میں امیون سسٹم یا جسم کے مدافعتی نظام کی مضبوطی کو بھی شامل کرتے ہیں۔ لوگ عام طور پر ایک دن میں دَس گرام نمک استعمال کرتے ہیں ، جو کہ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ مقدار سے دگنا بنتا ہے۔ایک امریکی سائنسی جریدے Cell Metabolism میں سائنسدانوں نے تحریر کیا ہے کہ اس بارے میں پہلے سے آگاہی تھی کہ جسم فاضل نمک یا سوڈیم کو جلد کی تہہ میں محفوظ کر لیتا ہے۔ مگر یہ واضح نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ انسانوں اور چوہوں میں سوڈیم ions(Na+) جلد کے اندر جمع ہو کر اسے بیکٹیریاز کی انفیکشن سے بچاتا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سوڈیم کی مدد سے چوہوں کا امیون سسٹم یا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔جرمن شہر ریگنزبرگ کے یونیورسٹی ہسپتال کے انسٹیٹیوٹ فار کلینیکل بائیالوجی اینڈ ہائیجین کے شعبے سے وابستہ پروفیسر یوناتھن ڑانچ اس بارے میں کہتے ہیں:’’جمع شدہ نمک جلد کو مائیکروبز یا خوردبینی جرثوموں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس عمل میں نمک جسم میں موجود میکروفیجز یا فیگو سائیٹ خلیوں کو متحرک بناتا ہے۔ یہ خلیے، جنہیں امیون سیلز بھی کہتے ہیں، نسیج کی تنظیم اور مرمت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور انفیکشن یا عفونت زدہ ایجنٹس کو مار دیتے ہیں۔تاہم پروفیسر یوناتھن ڑانچ نے بہت زیادہ نمک کھانے والوں کو خبردار بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’جو افراد بہت زیادہ نمک استعمال کرتے ہیں، وہ دل اور رگوں یا نسوں کی گوناگوں بیماریوں کے خطرات سے دو چار رہتے ہیں۔ اس لیے سائنسدانوں کی نمک کے فوائد سے متعلق ریسرچ کے نتائج کو ’ وائٹ کارڈ‘ نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ ابھی اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘‘جرمن صوبے باویریا کے جانوروں کی غذا اور فیڈ مینیجمنٹ اسٹیٹ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوبرٹ اسپیکرز کا کہنا ہے کہ ’نمک وہ واحد مادہ ہے، جس کی کمی کو جانور بھی محسوس کر لیتے ہیں اور وہ اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔ ان کے بقول جب جانور اپنے جسم میں نمک کی مقدار کی کمی محسوس کر لیتے ہیں تو وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مٹی کھاتے ہیں یا لکڑی چباتے ہیں۔ اس کے علاوہ جانوروں کی غذا میں نمک شامل کیا جاتا ہے یا انہیں نمک چٹایا جاتا ہے۔محققین اور ماہرین نے تاہم کہا ہے کہ کھانے میں نمک کی مقدار کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی، ابھی اس بارے میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ نمک کی کتنی مقدار فائدہ مند یا نقصان دہ ہوتی ہے، اس بارے میں ابھی محض قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔