اتر پردیش کے سنبھل میں 24 نومبر کو جامع مسجد کے اطراف میں ہونے والے تشدد کے بعد پولیس نے تشدد میں مبینہ طور پر ملوث 74 افراد کی شناخت کے لیے ان کے پوسٹر مسجد کی دیواروں پر چسپاں کر دیے ہیں۔ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جو بھی ان افراد کی شناخت کرے گا،
اسے انعام دیا جائے گا۔ تاہم، پولیس کے اس اقدام سے مقامی لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
جمعہ کے روز سنبھل پولیس کی ٹیم نے ایس پی کے کے بشنوئی، اے ایس پی سریش چندر اور سی او انوج چودھری کی موجودگی میں بھاری پولیس فورس کے ساتھ یہ کارروائی انجام دی۔ پولیس کے مطابق، 24 نومبر کو جامع مسجد کے آس پاس تشدد کے
دوران توڑ پھوڑ، آگ زنی اور پولیس پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔
اس دوران چار افراد کی موت ہوئی تھی، جبکہ ایس پی کے کے بشنوئی، سی او انوج چودھری سمیت 29 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
تشدد کے بعد پولیس نے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق، پارٹی کے ایم ایل اے نواب اقبال محمود کے بیٹے سہیل اقبال سمیت 6 افراد کو نامزد کیا اور 3000 سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پولیس نے اب تک 76 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے، جبکہ مزید ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پولیس صرف ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنا رہی ہے اور طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسجد کے سروے کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، جس کے بعد حالات خراب ہوئے۔
کچھ سماجی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یوگی حکومت کے دوران اکثر ملزمان کے پوسٹر چسپاں کیے جاتے ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے اور عوامی املاک کے نقصان کی بھرپائی کے لیے جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔
پولیس کا مؤقف ہے کہ پوسٹرز چسپاں کرنے کا مقصد تشدد میں ملوث افراد کی شناخت کر کے انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ اے ایس پی سریش چندر کے مطابق مزید
افراد کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور جلد ہی دیگر چہروں کی بھی شناخت کی جائے گی۔
یہ معاملہ نہ صرف سنبھل بلکہ ریاست بھر میں زیر بحث ہے، جہاں ایک طبقہ پولیس کارروائی کو ضروری قرار دے رہا ہے، جبکہ دوسرا اسے یکطرفہ اور امتیازی سلوک سے تعبیر کر رہا ہے۔