سعودی عرب میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے 13 سال کی عمر میں گرفتار کئے گئے بچے کو سزائے موت دینے کی تیاریاں پوری ہو گئی ہیں ۔
مرتجى قريريص کو حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے، دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے اور سیکورٹی اہلکاروں پر پیٹرول بم سے حملہ کرنے کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے۔
18 سالہ مرتجى قريريص نے ان الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حراست میں جسمانی اذیتیں دے کر اسے ان الزامات کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے سعودی عرب کے درخواست کی ہے کہ پانچ سال پہلے گرفتار کئے گئے اس بچے کا سر قلم نہ کیا جائے ۔
مرتجى قريريص کو 13 سال کی عمر میں حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کرنے کے دروان گرفتار کیا گیا تھا اور اسی وقت سے اسے جیل میں قید کرکے رکھا گیا ہے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مرتجى قريريص پر جو الزامات عائد کئے گئے ہيں ان میں سے کچھ کا تعلق اس وقت سے ہے جب وہ صرف 10 سال کے تھے۔
مرتجى قريريص پر الزام ہے کہ 10 سال کی عمر میں اس نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی حالانکہ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے بھائی کی تشیع جنازہ میں شرکت کی تھی، جس کی 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ میں شہادت واقع ہوگئی تھی ۔
سی این این نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مرتجى قريريص 2011 میں مشرقی صوبے کے دوسرے بچوں کے ساتھ ایک سائیکل ریلی میں شریک ہیں ۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ مرتجى قريريص کو 2014 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ بحرین جا رہے تھے۔
ایمنیسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق گرفتاری کے پانچ سال بعد تک مرتجى قريريص سے کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی حتی اس کے وکیل کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ۔
مرتجى قريريص کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور تحقیقات کے دوران جسمانی اذیتیں بھی دی گئیں ۔ تحقیقات کرنے والے پولیس افسروں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنے خلاف عائد الزامات کا اعتراف کر لے گا تو اسے آزاد کر دیا جائے گا ۔
سعودی عرب نے سی این این کی رپورٹ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اپیل پر ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریسرچ ڈائریکٹر لن مالوف کا کہنا ہے کہ مرتجى قريريص کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرنے جیسے الزامات 10 سال کی عمر سے کم سے متعلق ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی تاریخ ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بچوں سمیت وہ سزائے موت کو سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اپریل کے مہینے میں بھی سعودی انتظامیہ نے 34 شیعہ مسلمانوں سمیت 37 افراد کے سر قلم کر دیئے تھے اور دوسرے شہریوں کے دلوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ان میں سے ایک کی لاش کو کھمبے پر لٹکا دیا تھا ۔