سعودی عرب کی حکومت نے شادی کرنے کے لیے نئی قانون سازی کرتے ہوئے پہلی بار عمر کا تعین کرتے ہوئے شادی کے لیے عمر کی حد 18 سال مقرر کردی۔اردو اخبار ڈاک کے مطابق سعودی عرب میں نئی قانون سازی سے قبل شادی کے لیے کوئی مخصوص عمر کا تعین نہیں تھا اور کئی واقعات میں لڑکیوں کی شادی 15 سال سے کم عمری میں بھی کرائی جاتی تھیں۔
اسی طرح لڑکوں کے لیے بھی شادی کی عمر کی کوئی خاص حد مقرر نہیں تھی، تاہم اب پہلی بار شادی کے لیے عمر کی حد کا تعین کردیا گیا۔
عرب اخبار ’دی نیشنل‘ کے مطابق چائلڈ میرج کے نئے قانون کے لیے کئی ماہ سے قانون سازی جاری تھی، تاہم وزارت انصاف نئے نئی قانون سازی سے متعلق ہدایات جاری کردیں۔
Saudi Arab banned under 18 marriages
Shukar … #sayNoTochildmarriage #sane #apriciatebleDecision
https://t.co/W84czqw912— uzma alkarim (@uzmaalkarim) December 27, 2019
رپورٹ کے مطابق چائلڈ میرج پروٹیکشن نامی بل کو سعودی شوریٰ کونسل نے پاس کیا اور اس بل پر گزشتہ کئی ماہ سے قانون سازی جاری تھی۔
قانون کو منظور کیے جانے کے بعد سعودی عرب کی وزارت انصاف نے تمام عدالتوں کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کردی گئی ہے۔شادی کے لیے 18 سال کی عمر کا شرط لڑکوں سمیت لڑکیوں پر بھی ہوگا۔
Saudi justice minister vows action against underage marriages | Arab News https://t.co/WPBRN8SQG7
— Dr Humma Saif (@HummaSaif) December 26, 2019
نئی قانون سازی کے تحت وزارت انصاف نے عدالتوں کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ اگر عدالتوں کو کسی کی جانب سے 18 سال کی عمر سے قبل شادی کی درخواست موصول ہوتی ہے تو وہ مذکورہ درخواست خصوصی کمیٹی کے پاس بھجوائیں۔
وزارت انصاف کی جانب سے چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی کمیٹی 18 سال سے قبل شادی کی درخواست کو دیکھنے کے بعد انہیں قانونی طور پر شادی کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرے گی۔
نئے قانون میں عدالتوں اور حکام کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ کس طرح بھی شادی کرنے والے لڑکے یا لڑکی کی عمر 15 سال سے کم نہ ہو۔
Marriage and buying a marital home remain big goals for young Saudi males, inspiring them to save for the future, reports the #Saudi Youth Development Survey for 2019, compiled by the General Authority for Statistics @Stats_Saudi #Vision2030 https://t.co/OtjhpNQnE3 pic.twitter.com/WDJkbmhVOj
— Arab News (@arabnews) December 28, 2019