امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کرلی۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب سے قریبی تعلقات اور ہتھیاروں کا معاہدہ برقرار رکھنے کی خواہش کے باوجود امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئرمین باب کارکر نے یہ قرارداد پیش کی۔
10 ری پبلکن اراکین نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف مذکورہ قرارداد کی حمایت کی۔
قرارداد میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی اس قرار داد میں سعودی میں گرفتار خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کو رہا کرنے، اقتصادی اور معاشرتی ریفارمز کے لیے کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
تاہم اس قرارداد پر امریکی ایوان نمائندگان کی جانب سے رائے شماری کیے جانے سے متعلق کچھ واضح نہیں۔
قرارداد میں سعودی عرب کو خبردار بھی کیا گیا ہے کہ روس اور چین کی حکومتوں سے تعاون اور ملٹری آلات کی خریداری امریکی-سعودی ملٹری تعلقات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اس قتل کی کوئی ابتدائی معلومات نہیں تھیں۔
تاہم ابتدائی طور پر متضاد وضاحتوں کے بعد ریاض نے بالاخر یہ تسلیم کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو اسنتنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل امریکی سینٹرز نے سینٹرل انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی ڈائریکٹر جینا ہسپیل کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات پر بریفنگ کے بعد کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس میں براہ راست ملوث ہیں۔
سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین باب کورکر نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اگر سعودی ولی عہد کا ٹرائل کیا جائے تو عدالت انہیں ‘صرف 30 منٹ میں’ مجرم ثابت کردے گی۔
جمال خاشقجی کا قتل؟
سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔
تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں نظر آئے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔
تاہم ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔
دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔
علاوہ ازیں گزشتہ ماہ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
یمن جنگ کے خاتمے کی حمایت
امریکی سینیٹ کی جانب سے منظور کی گئی ایک علیحدہ قرار داد میں یمن میں جاری جنگ میں سعودی اتحاد کی حمایت اور امریکا کے ملٹری تعاون کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ یمن میں جاری جنگ میں امریکا قانونی طور پر ملوث نہیں اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی باغیوں پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے خاتمے کی حمایت کرتا ہے۔
تاہم، اس قرار داد کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنانے کے لیے مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس قرار داد کی حمایت میں 56 اور اس کے خلاف 41 ووٹ دیے گئے۔
یہ پہلا موقع تھا کہ امریکی کانگریس نے وار پاورز ایکٹ کے تحت غیر ملکی ملٹری مداخلت میں امریکی فورسز کو شامل نہ کرنے کے حمایت کی تھی۔