یوکرین کے فضائی دفاع سے لے کر اسرائیل کی جاسوسی ایجنسی موساد تک کی تفصیلات پر مشتمل خفیہ دستاویز کے آن لائن شائع ہوجانے پر امریکی حکام اس لیک کے ماخذ کی شناخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے پسِ پردہ امریکی ہوسکتے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ دستاویزات میں یوکرین جنگ، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے متعلق موضوعات پر بات کی گئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اتحادی کے بجائے کسی امریکی نے لیک کیا ہے۔
پینٹاگون کے ایک سابق سینئر عہدیدار مائیکل ملروئے نے رائٹرز کو بتایا کہ ’اب توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ یہ ایک امریکی لیک ہے کیونکہ بہت سی دستاویزات صرف امریکی ہاتھوں میں تھیں‘۔
امریکی حکام نے کہا کہ تحقیقات اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور تحقیقات کرنے والوں نے اس لیک کے پیچھے روس نواز عناصر کے ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا۔
خفیہ دستاویزات کی حالیہ لیک کو سال 2013 میں وکی لیکس ویب سائٹ پر 7 لاکھ سے زائد دستاویزات، ویڈیوز، سفارتی کیبلز سامنے آنے کے بعد سیکیورٹی کی سب سے سنگین خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔
جب ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا کہ یوکرین سمیت متعدد ممالک کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس دستاویزات کے افشا ہونے کے پیچھے ماسکو کا ہاتھ ہوسکتا ہے تو اس کے جواب میں روس نے کہا کہ ہر چیز کے لیے ہمیشہ کریملن کو مورد الزام ٹھہرانے کا عمومی رجحان ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے جب ان سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا اس لیک کا ذمہ دار روس ہو سکتا ہے، تو انہوں نے صحافیوں کو جواب دیا کہ ’میں اس پر کسی بھی طرح سے تبصرہ نہیں کر سکتا‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ اور میں جانتے ہیں کہ حقیقت میں ہر چیز کا الزام روس پر ڈالنے کا رجحان ہے، یہ عام طور پر ایک بیماری ہے۔
اس خیال کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ واشنگٹن نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جاسوسی کی ہے، روسی ترجمان نے کہا کہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ساتھ ہی انہوں نے لیکس کو ’کافی دلچسپ‘قرار دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن یہ حقیقت کہ امریکا مختلف سربراہانِ مملکت کی جاسوسی کر رہا ہے، خاص طور پر یورپی دارالحکومتوں میں یہ ایک طویل عرصے سے بار بار سامنے آ رہا ہے، جس کی وجہ سے مختلف خطرناک حالات پیدا ہو رہے ہیں۔‘
لیک کے انکشاف کے بعد رائٹرز نے ’خفیہ‘ اور ’ٹاپ سیکریٹ‘ کے لیبل والی 50 سے زائد دستاویزات کا جائزہ لیا جو گزشتہ ماہ پہلی بار سوشل میڈیا ویب سائٹس پر سامنے آئی تھیں۔
کچھ دستاویزات چند ہفتے پہلے پوسٹ کی گئی تھیں، سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے ان کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔
رائٹرز نے آزادانہ طور پر دستاویزات کی صداقت کی تصدیق نہیں کی ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ یوکرین سے میدان جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے کچھ تخمینے روسی نقصانات کو کم کرنے کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ کم از کم ایک کو ’ان کلاسیفائیڈ‘ کیوں نشان زد کیا گیا تھا لیکن اس میں اعلیٰ خفیہ معلومات شامل ہیں، کچھ دستاویزات پر ’نو فارن‘ کا نشان لگایا تھا یعنی انہیں غیر ملکی شہریوں کو جاری نہیں کیا جا سکتا۔
دو امریکی عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اس بات کو مسترد نہیں کیا کہ ان دستاویزات میں تفتیش کاروں کو ان کی اصلیت کے بارے میں گمراہ کرنے یا غلط معلومات پھیلانے کے لیے رد و بدل کیا گیا ہے جس سے امریکی سلامتی کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس لیک سے متعلق سوالات کو پینٹاگون سے پوچھنے کو کہا، جس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ تصویری دستاویزات کی درستگی کا جائزہ لے رہا ہے۔