لکھنؤ31؍جنوری2024 دلدار علی غفران مآبؒ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مجدد شریعت حضرت غفرانمآب کی وفات 19 رجب 1235 ہجری کو ہوئی تھی اسی مناسبت سے شب وفات ،غفران مآب کی حیات جاوید اور زندگی بخش کارناموں پر ایک سیمینارو مجلس ترحیم کاانعقاد حسینہ جنت مآ ب سید تقی صاحبؒ، اکبر گیٹ ، لکھنؤمیں کیا گیا جس کی صدارت آیت اللہ امیر العلما سید حمید الحسن صاحب قبلہ نے کی
۔پر وگرام کا آغاز مولانا ظفرعباس کشمیری نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ سیمینار و مجلس عزا کی نظامت کے فرائض مولانا شرر نقوی نے انجام دیئے ۔افتتاحی تقریر حجۃ الاسلام مولانا صائم مہدی نے کرتے ہوئے خاندان اجتھاد کی خدمات کا تذکرہ کیا ۔ آقائے سیستانی کے وکیل حجۃ الاسلام والمسلمین سید اشرف غروی صاحب نے مقالہ میں کہاکہ حضرت غفرانمآب نے اخباریت اور صوفیت کے خلاف جہاد کیا اور شیعیت کو ان دونوں سے پاک کیا تا کہ گروہ حق میں کوئی حق چھپ نہ پائے اور نہ ہی کوئی باطل داخل ہو پائے۔
صاحب جواہر کے تحریر کر دہ خطوط تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کے حوزات جس طرح سے ماضی میں خدمت دین انجام دے رہے تھے خدا کرے جلد سے جلد وہ ایام لوٹیں کہ ہندوستان کا لکھنؤ شہر پھر نجف ہند بن جائے اورمولانامصطفی علی خاں صاحب نے آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی المعروف بہ غفران مآبؒ کی حیات مبارکہ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بر صغیر میں شرعی عدالت ، نمازجمعہ و جماعت کا قیام اور عزاداری کا فروغ آپ ہی کا کارنامہ تھا ، شیعہ فقہی اور کلامی مکتب کو تقویت پہنچائی ۔ حوزہ علمیہ لکھنؤ کو قائم کیا۔ نہ صرف حوزہ علمیہ لکھنؤ بلکہ حوزہ علمیہ نجف اشرف کو بھی تقویت پہنچائی۔
خاندان اجتھاد کے چشم و چراغ مولانا سید سیف عباس نقوی نے سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حضرت غفرانمآب کی دعا جو حرم امیر المو منینؑ نے مانگی گئی تھی کہ تا ظہور قائم آل محمدؐ ہماری نسل میں یہ مبلغ دین کا سلسلہ باقی رہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ الحمداللہ ڈھائی سو سال ہوگئے آج تک یہ سلسلہ باقی ہے ۔
مولانا سید سیف عباس نقوی نے کہاکہ فردوس مکانؒ نے ایک تاریخ ساز احتجاج کر کے انگریزوں سے آصفی مسجد اور حسینیہ ساتھ ہی اور بہت سی مذہبی عمارتیں آزاد کرالیں۔جن میں نمازیں اور عزاداریٔ سید الشہداء ؑ اور دروس کے سلسلے شروع کر وادیئے۔نیز اس وقت کی عدالتِ عظمیٰ سے مقدمہ جیت کر پورے ہندوستان میں آپ نےوخلیفتہٗ بلا فصل اذان میں رائج کیا۔
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے آیت اللہ امیر العلما سید حمید الحسن صاحب قبلہ نے علم اور علما کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جناب غفرانمآب کی خدمات اور ان کے ذریعہ سے شیعت کو جوفروغ ملا ہے کو کوئی متبادل نہیں ہے ۔
آخر میں غفران مآب فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کچھ کتابیں منظر عام پر آئیں جن کو مولانا محمد مشرقین استاد جامعہ ناظمیہ و ڈاکٹر عارف عباس استاد معین الدین چشتی یونیو رسٹی نے ترتیب و تالیف دی ۔’’مجد د غفران مآب اور ان کے پانچ مجتہد فرزند(اردو)‘‘ ، ’’ حالات حضرت امیر مختارترجمہ نور الابصار(اردو)‘‘ ، ’’ مکاتیب صاحب جواہر الی سلطان العلما و سید العلما(عربی)‘‘، ’’ مکاتیب الاعلام الی ممتاز العلما(عربی) ‘‘، مکاتیب مفتی محمد عباس و ممتاز العلما( عربی)‘‘، تذکرہ علماعلامہ سید مہدی رضوی (فارسی) ‘‘کتابوں کی رسم اجرا بدست آیت اللہ سید حمید الحسن ، حجۃ الاسلام مولانا سید صائم مہدی ، مولانا سید سیف عباس ، مولانا ظہیر احمد احمد افتخاری ، مولانا فرید الحسن نے کی۔
کثیر تعداد میں علما و مو منین نے شرکت فرمائی جس میں مولاناسید فرید الحسن پرنسپل جامعہ جاظمیہ،مولاناظہیر احمد افتخاری مولانا افضل عبا س ،مولانا محمد رضا ایلیا ؔ،مولانا افضال حسین کا ظمی ، مولانا مرزارضاحسین، مولانا شباب واسطی ، مولانا کاظم واحدی ، مولانا مشرقین ، وصی الحسن ،مولانا، ڈاکٹر علی سلمان ، مولانا وزیر حسن زینبی، مولانا شفیق عابدی ، مولانا سید مولانا تصور حسین ،، ڈاکٹر کلب سبطین نوری ،مولانا شبیہ الحسن صاحب ،مولانا نفس اختر ، مولانا قمر الحسن ، مولانا نسیم خاں ، مولاناسہیل عباس ، مولانامر زا واحد حسین ، مولانا نا صر عبا س، آصف سیتھلی ، مولانا عازم سیتھیلی ، مولانا آغامہدی ، مولاناتفسیر حسن ،مولاناعترت ، مولانا سرتاج ، مولاناسید عالی ، اعجاز حسین ، مولانا غلام سرور ، مولانا شمس الحسن ، مولانامیثم زیدی ، مولانامحمد حسین، مولاناغلام علی وغیرہ شامل ہیں۔