بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ ابو الكلام عبد المؤمن کا کہنا ہے کہ 19 سالہ دولت اسلامیہ المعروف داعش کی ’دلہن‘ شمیمہ بیگم اگر ان کے ملک آتی ہیں تو انہیں دہشت گردی کے قوانین کے تحت سزائے موت کا سامنا کرنا ہو گا۔ کے مطابق شمیمہ بیگم کا بنگلہ دیش سے کوئی تعلق نہیں۔
سنہ 2018 میں مشرقی لندن سے دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے جانے والے شمیمہ بیگم سے فروری میں برطانوی شہریت واپس لے لی گئی ہے۔ ان کی والدہ کی وجہ سے ان کے بنگلہ دیشی شہری ہونے کے امکان پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی شخص کو ریاست کے بغیر قرار دینا غیر قانونی ہے۔
شمیمہ بیگم کے وکیل تسنیم اکونجی کا کہنا تھا کہ ’شمیمہ بیگم کسی بھی طرح بنگلہ دیش کا مسئلہ نہیں ہے۔‘ان کی جانب سے ہوم آفس کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ ابو الكلام عبد المؤمن نے برطانوی چینل ’’آئی ٹی وی نیوز‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شمیمہ بیگم کو بنگلہ دیش کی شہریت دی جائے یا انہیں ملک میں انے کی اجازت دی جائے۔ ‘‘جس کے بعد برطانوی وزیر خارجہ ساجد جاوید پر شمیمہ بیگم کی حیثیت کے مسئلہ کو حل کرنے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ أبو الكلام عبد المؤمن کے مطابق ’شمیمہ بیگم کے پاس کبھی بنگلہ دیشی شہریت نہیں تھی اور اس کے والدین بھی برطانوی شہری ہیں۔‘برطانوی حکومت ہی اس کی ذمہ دار ہے اور انہیں ہی اس سے نمٹنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ بنگلہ دیش آئیں تو انہیں دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کے وجہ سے مجرم قرار دیا جائے گا۔ بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ أبو الكلام عبد المؤمن کے مطابق ’بنگلہ دیشی قوانین بہت واضح ہیں۔ دہشت گردوں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔‘
خیال رہے کہ 15 سال کی عمر میں شمیمہ اپنی دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ 2015 میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت کے لیے ملک چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ اور رواں برس فروری کے وسط میں شامی پناہ گزین کیمپ سے ملی تھیں۔ وہ واپس برطانیہ آنا چاہتی تھیں تاہم ان کو برطانوی شہریت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ شمیمہ بیگم کا پیدا ہونیوالا تیسرا نوزائیدہ بیٹا نمونیا کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ اس بچے کی عمر تین ہفتوں سے کم تھی۔ ان کے اس سے پہلے دو بچے بھی ہلاک ہو چکے تھے۔