لندن: پاکستانی ہدایت کارہ اور فلمساز شرمین عبید چنائے نے ٹوئٹر پر پیغامات پوسٹ کر کے تنازعات کی زد میں آ گئی، پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ جب یو کے کے آغا خان ہسپتال میں ان کی بہن علاج کے لئے گئی تو وہاں کے ڈاکٹر نے ان کو فیس بک پر ایڈ کرنے کی کوشش کی،
دوسرے پیغام میں انہوں نے لکھا میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر اس سوچ کو ٹھیک سمجھتا ہے کہ کسی خاتون مریضہ کی تفصیلات حاصل کر کے اسے فیس بک پر ایڈ کرے، یہ اخلاقیات کے خلاف ہے’۔ ایک اور پیغام میں انہوں نے اسے ہراساں کرنا کہتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا۔ یعنی ابتدائی دو ٹوئیٹس میں شرمین عبید چنائے نے اسے سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا اور تیسرے میں اس واقعے کو ‘ہراساں’ کرنا کہا، جبکہ انہوں نے ڈاکٹر کے خلاف ایکشن لینے کا بھی کہا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ اس متعلقہ ڈاکٹر کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے فارغ کر دیا ہے۔ اے کے یو انتظامیہ نے اس افواہ کی تصدیق یا تردید سے انکار کرتے ہوئے کہا ‘ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال ہمیشہ راز داری کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھتا ہے اور کبھی بھی کسی ملازم یا مریض کے بارے میں معلومات جاری نہیں کرتا’۔ دوسری جانب غیر مصدقہ رپورٹس میں یہ دعویٰ سامنے آ رہا ہے کہ ڈاکٹروں کو جانے دیا گیا ہے۔ اس واقعے پر اپنی ٹوئیٹس کے نتیجے میں شرمین عبید چنائے کو بھی سوشل میڈیا پر لوگوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔معروف شخصیات کا ماننا ہے کہ شرمین نے فیس بک فرینڈ ریکوئسٹ کو ہراساں کرنے قرار دے کر اس ہراساں ہونے والے حقیقی متاثرین کی تکلیف کو غیر اہم کر دیا ہے۔ ایک پوسٹ میں متعلقہ ڈاکٹر کے ایک ساتھی نے یہ تاثر دیا کہ معروف ہدایتکارہ نے ڈاکٹر کی برطرفی کے لیے اپنی شہرت کی طاقت کا غلط استعمال کیا۔ اس حوالے سے لوگوں کا ردعمل ملا جلا ہے جن میں سے کچھ فیس بک فرینڈ ریکوئسٹ کو ہراساں کرنا قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ ڈاکٹر کو ملنے والی سزا کا زیادہ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم شرمین عبید چنائے کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے خاندان کی طاقت استعمال کرنے کا تاثر بھی غلط قرار دیا جا رہا ہے، جو کہ خود ان کی اپنی فلموں سے متضاد ہے جس میں عدالتی نظام کو مساوی بنیادوں پر کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔