لوک سبھا الیکشن کے نتائج 23 مئی کوآئیں گے، لیکن اس سے پہلے ہی سیٹوں کولے کرہر طرف قیاس آرائیوں کا دورشروع ہوگیا ہے۔ اسی ضمن میں دہلی کے وزیراعلیٰ اورعام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے بھی دہلی کے نتائج پراپنی قیاس آرائی پیش کی ہے۔ کیجریوال کے مطابق انہیں دہلی میں ساتوں سیٹوں پرجیت کی امید تھی، لیکن آخری لمحہ میں معاملہ الٹا ہوگیا۔
سابق وزیراعلیٰ شیلا دکشت نے موجودہ وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کے مسلمانوں کے ووٹ کانگریس میں ٹرانسفرہونے کے بیان کا جواب دیا ہے۔ شیلا دکشت نے کہا کہ ‘مجھے نہیں معلوم کہ کیجریوال کیا کہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہرکسی کو حق ہے کہ وہ جس بھی پارٹی کو ووٹ دینا چاہے، دے سکتا ہے’۔ شیلا دکشت نے کیجریوال پرمزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہلی کے لوگ نہ توان کا گورننس ماڈل سمجھ پائے ہیں، نہ ہی لوگ اسے پسند کرتے ہیں’۔ شیلا دکشت نے کہا کہ اس سے قبل بھی کیجریوال پرٹوئٹرکے ذریعہ نشانہ سادھا تھا۔ انہوں نے کیجریوال پران کی صحت کولے کرافواہ پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔
اس سے قبل انگریزی اخبار’انڈین ایکسپریس’ سے بات چیت میں کیجریوال نےکہا کہ آخری وقت پرعام آدمی پارٹی کا سارا ووٹ کانگریس کوشفٹ ہوگیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی پارٹی کو دہلی میں کتنی سیٹوں پرجیت ملےگی؟ توانہوں نے کہا ‘دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ دراصل الیکشن کے48 گھنٹے پہلےتک ہمیں لگ رہا تھا کہ ساتوں سیٹ پرعام آدمی پارٹی کوجیت ملے گی، لیکن آخری لمحوں میں سارا کا سارا ووٹ کانگریس کو چلا گیا۔ یہ سب الیکشن سے ایک دن پہلےہوا۔ ہم پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ یہاں 13-12 فیصد مسلمانوں کے ووٹ ہیں’۔
بی جے پی کے دوبارہ اقتدارمیں آنےکےسوال پرکیجریوال نےکہا کہ اگرای وی ایم سے چھیڑ چھاڑنہیں ہوئی تومودی جی کی واپسی مشکل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرمرکز میں نریندرمودی اورامت شاہ کےبغیرحکومت بنتی ہے، تووہ حمایت دینے کوتیارہیں۔ تاہم دہلی کومکمل ریاست کا درجہ دینےکے وعدے پرہی وہ حکومت میں شامل ہوں گے۔
واضح رہے کہ سال 2014 کےلوک سبھا الیکشن میں عام آدمی پارٹی کوسبھی سات سیٹوں پر زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس بارکیجریوال کی پارٹی نےکانگریس کے ساتھ اتحاد کی کوشش توضرورکی، لیکن آخری لمحوں تک بات نہیں بنی۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے بیان بازی ہوتی رہیں، لیکن اتحاد نہیں ہوا۔ اس کے بعد یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ دونوں پارٹیوں میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا، لیکن حقیقی صورتحال کیا ہے، اس کے لئے 23 مئی کا انتظارکرنا ہوگا۔