منگل کو بابری مسجد۔رام جنم بھومی معاملے میں ایک نیا موڑ آ گیا. سپریم کورٹ میں شیعہ وقف بورڈ اتر پردیش کی جانب سے ایک حلف نامہ دائر کیا گیا ہے. اس حلف نامے میں بورڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ربابری مسجد ایودھیا میں متنازعہ زمین پرنہیں بنائی جا سکتی ہے.
شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے سپریم میں سینئر وکیل مہیش چندر ڈھینگرا نے حلفنامہ عدالت عظمی میں داخل کیا
حلف نامے کے مطابق بورڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مسجد، رام مندر سے ایک مناسب فاصلے پر مسلم آبادی والے علاقے میں بنائی جا سکتی ہے۔ بورڈ کی جانب سے حلف نامے میں یہ بھی بات کہی گئی ہے کہ مندر اور مسجد دونوں کو ہی اگر متنازعہ زمین پر بنایا جاتا ہے تو یہاں پر آئے دن جدوجہد کی صورت حال پیدا ہوگی جس سے بچنا چاہئے. شیعہ وقف بورڈ نے جو عرضی دائر کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کو میر باقی نے بنایا تھا اور وہ شیعہ تھے. ایسے میں سنی وقف بورڈ کا دعوی غلط ہے ۔
Advocate MC Dhingra
یاد رہے چند روز قبل شیعہ وقف بورڈ نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ 1946 میں شیعوں اور سنیوں کے مابین جو مقدمہ ملکیت کے تعلق سے تھا اسکو اس وقت کے شیعہ وقف بورڈ نے ایمانداری سے نہیں لڑا تھا ۔ بورڈ کے چیر میں سید وسیم رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس وقت کے سول جج ایس اے احسن نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ چونکہ مسجد میں تراویح بھی ہوتی تھی جو کہ شیعہ فرقہ میں ادا نہیں کی جاتی اسلئے مسجد سنی المذہب کی ملکیت ہے۔انہوں نے بتایا کہ
بابری مسجد کے تمام متولی شیعہ تھے اور آخری متولی جاوید حسن کا تعلق بھی شیعہ فرقے سے تھا،لیکن پیش امام اور موذن سنی المذہب تھے مگر انکو اجرت کی ادائگی شیعہ متولی کرتے تھے
بورڈ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس معاملے کو ایک کمیٹی کی جانب سے حل کیا جانا چاہئے. دوسری طرف شیعہ بورڈ کے اس حلف نامے کو بریلوی سنی علماء نے مسترد کر دیا ہے. بریلوی سنی علماء نے حلف نامے میں اعتراض درج کرائی ہے. ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں فیصلہ حلف نامے سے نہیں حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے.
بہرحال شیعہ وقف بورڈ کی اس نئی پہل سے اس بحث میں سرگرمی پیدا ہو گئی ہے اور اب اسکا انتظار ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس حلفنامہ کو اہمیت دے گا یا نہیں۔