ایڈورڈ اسنوڈن کے انکشافات کے 7 سال بعد امریکی عدالت نے نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کی جانب سے شہریوں کے ٹیلی فون ریکارڈز کی نگرانی کے پروگرام کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا کہ امریکی خفیہ اداروں کے جو حکام کھلے عام اس کا دفاع کر رہے تھے وہ سچ نہیں کہہ رہے تھے۔
امریکا کی اپیل کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ خفیہ طور پر لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون کا ریکارڈ جمع کرنا فارن انٹیلی جنس سرویلنس ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اور غیر آئینی بھی کہلایا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ این ایس اے کے کنٹریکٹر ایڈورڈ اسنوڈن نے 2013 میں انکشافات کیے تھے اور روس میں پناہ لی تھی اور وہ تاحال جاسوسی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسنوڈن نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘سات سال پہلے خبر کے ساتھ ہی مجھے سچ بولنے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے کبھی تصور ہی نہیں کیا تھا کہ میں دیکھ سکوں گا کہ ہماری عدالتیں این ایس اے کی غیرقانونی سرگرمیوں کی مذمت کریں گی اور اسی فیصلے میں انکشاف کرنے پر مجھے بھی کریڈٹ دیا جائے گیا’۔
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اور وہ دن آچکا ہے’۔
برطانوی اخبار گارجین میں 2013 میں شائع رپورٹ میں امریکی ایجنسی این ایس اے کی جانب سے لاکھوں شہریوں کے ٹیلی فون کا ریکارڈ جمع کرنے کا انکشاف کیا گیا تھا۔
ایڈورڈ اسنوڈن کے ان انکشافات نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا تھا اور انہوں نے روس جاکر پناہ لی تھی، جبکہ امریکا میں ان کے خلاف جاسوسی کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدیدار اصرار کر رہے تھے کہ این ایس اے نے کبھی بھی امریکیوں کا ریکارڈ جمع نہیں کیا۔
بعد ازاں انہوں نے متعدد کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مقامی سطح پر انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے خفیہ طور پر معلومات اکٹھا کرنا انتہائی اہم ہے۔