سونیا نے کہا، ’’لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ 2014 کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘، ’میں نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘ جیسے وعدے صر ف اور صرف ڈرامہ بازی اور ووٹ ہتھیانے اور کرسی پر قضبہ کر نے کی چال تھی۔‘‘
یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے انتہائی پر جوش انداز میں کانگریس کے 84ویں پلینری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مودی حکومت کی سخت الفاظ میں تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندرمودی بدعنوانی کے خلاف جو’ نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا ‘ کا نعرہ دیا تھا وہ محض کرسی ہتھیانے کے لئے ڈرامےبازی تھی۔
سونیا گاندھی نےکانگریس کے نئے صدر راہل گاندھی کو صدر بننے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے پہلے میں ہمارے نئے صدر راہل گاندھی کو مبارک باد پیش کرتی ہوں اور ان کو نیک خواہشات دیتی ہوں، میں ان کا استقبال کرتی ہوں۔ انہوں نے بہت ہی چیلنج بھرے وقت میں یہ ذمہ داری سنبھالی ہے‘‘۔ انہوں نے اس موقع پر کانگریس کارکنان سے کہا کہ ’’ یہ وقت اپنے نجی مفادات اور خواہشات کے بارے میں سوچنے کا نہیں ہے۔ یہ وقت یہ دیکھنے کا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص پارٹی کے لئے کیا کر سکتا ہے‘‘۔سونیا گاندھی نے پارٹی کو مضبوط بنانے کی ضرور ت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ا ٓج محض ایک بات معنی رکھتی ہے کہ جس پارٹی سے ہمارا اتنا پرانا ناطہ ہے اسے مزید کس طرح مضبوط کیا جا سکے ۔جس سے موجودہ چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے اور پارٹی کی جیت ہوسکے۔پارٹی کی جیت ملک کی جیت ہوگی، ہم سب کی جیت ہوگی۔ کانگریس محض ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایک تحریک رہی ہے۔کانگریس ہماری قومی زندگی کا 133 سالوں سے اس لئے ایک جز ہے کیوں کہ اس میں ہندوستان کی ثقافت کی پوری تصویر نظر آتی ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس آج نئے صدر کی قیادت میں وہ پارٹی بنے جو ایک بار پھر ہمارے ملک کا بنیادی ایجنڈہ طے کرے۔ کانگریس وہ پارٹی بنے جو کہ سماج کے ہر طبقہ کی امیدوں اور خواہشات کی نمائندگی کرے۔ کانگریس وہ پارٹی بنے جو ایک بار پھر سیاسی اور سماجی ڈائیلاگ کو آگے بڑھائے‘‘۔40 برس پہلے چک منگلور میں اندرا جی کی شاندار جیت کا ذکر تے ہوئے سونیا نےکہا کہ ’’اس جیت نے ملک کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا تھااور کانگریس پھر ایک طاقتور پارٹی بن کر ابھری۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ ہونے والے کرناٹک کے انتخابات میں ہماری پارٹی شاندار مظاہرہ کرے گی ، تاکہ ملک کی سیاست کو نئی سمت ملے۔ گجرات، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی زمینی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے وجود کو مٹانا چاہتے تھے انہیں یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ ابھی تک لوگوں کے دلوں میں کانگریس کی کتنی عزت ہے‘‘۔پارٹی میں اپنی صدارت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’ مجھے دو عشروں تک کانگریس صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں سیاست میں نہیں آنا چاہتی تھی لیکن حالات نے مجھے اس میں آنے کے لئے راغب کیا۔
ایک ایسی دنیا میں جس میں کبھی نہیں آنا چاہتی تھی لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ پارٹی کمزور ہو رہی ہے اور ہمارے بنیادی اصول خطرے میں ہیں تب کانگریس کے لوگوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے میں نے کانگریس کی قیادت کو سنبھالا۔ ایک ایک قدم بڑھا کر ہم نے 1998 سے 2004 کے بیچ بہت سی ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں بنائیں۔ ان حکومتوں کی کامیابیوں نے پارٹی کو مضبوط بنایا اور پارٹی کو حوصلہ اور قوت ملی‘‘