اے پی کے وشاکھاپٹنم کے کمیکل پلانٹ سے اسٹرئین گیس کا اخراج۔ آٹھ افراد کی موت۔200سے زائد بیمار پڑگئے
حیدرآباد 7مئی (یواین آئی) اے پی کے وشاکھاپٹنم کے کمیکل پلانٹ سے اسٹرئین گیس کے اخراج کے سبب تقریبا نو افراد بشمول ایک 8 سالہ لڑکے کی موت واقع ہوگئی اور 200 سے زائد افراد بیمارپڑگئے جن کو علاج کے لئے وشاکھاپٹنم کے مختلف اسپتالوں میں داخل کروایاگیا۔
مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کشن ریڈی نے ایک پرائیویٹ نیوزچینل سے بات کرتے ہوئے توثیق کی ہے کہ پانچ افراد کی موت گوپال پٹنم علاقہ کے قریب واقع ایل پی پولی مرس کمیکل پلانٹ سے گیس کے اخراج کے سبب ہوئی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ ان تمام کی موت بندرگاہی شہر میں واقع کنگ جارج اسپتال میں علاج کے دوران ہوئی۔ایمبولنس اور فائر انجنس کے ساتھ ساتھ پولیس کمیکل پلانٹ پہنچ گئی۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس پلانٹ کی گیس تین کیلو میٹر کے احاطہ میں پھیل گئی جس سے تقریبا پانچ مواضعات متاثر ہوگئے۔سینکڑوں افراد اس زہریلی گیس کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔
بتایاجاتا ہے کہ اس واقعہ کے سبب پانچ مواضعات بشمول آرآر وینکٹاپورم،پداپورم،بی سی کالونوی اور کمپارالاپالم متاثر ہوئے۔کمیکل گیس پلانٹ کے قریب رہنے والے افراد نے آنکھیں جلنے اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت کی۔عہدیداروں نے یہ بات بتائی۔اس واقعہ کے سبب کئی گائیوں اور کتوں کی بھی موت ہوگئی۔گریٹر وشاکھاپٹنم میونسپل
کارپوریشن نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ گوپال پٹنم کے ایل جی پالی مرس میں گیس کے اخراج کا واقعہ پیش آیا۔شہریوں سے درخواست ہے کہ وہ ان مقامات کو نہ جائیں اور اپنے مکانات سے نہ احتیاطی اقدام کے طورپر نہ نکلیں۔ماسک پہنے ہوئے لوگ لوگوں کو منتقل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو سانس لینے میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔گیس کے اخراج کی اصل وجہ کا ہنوز پتہ نہیں چل سکا۔عہدیداروں نے یہ بات بتائی۔این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آرایف کی ٹیمیں اس علاقہ میں تعینات کردی گئی ہیں اور بچاو کارروائی جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
بھارتی ریاست آندھرا پردیش میں ایک کیمیکل پلانٹ سے گیس لیک ہونے کے باعث تقریباً 9 افراد ہلاک اور ایک ہزار افراد متاثر ہوگئے جبکہ حکام نے پلانٹ کے اطراف کے علاقے خالی کروالیے اور اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں اداے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق گیس کا اخراج 5 ہزار ٹن کے 2 ٹینکس سے ہوا جو جنوبی کوریا کی کمپنی ایل جی کیم کی ملکیت ہیں اور کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے باعث وہاں کام معطل تھا۔
بھارتی ٹیلی ویژن پر چلنے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ساحلی صنعتی شہر وساکھا پٹنم کی گلیوں میں خواتین اور بچے بے حس وحرکت پڑے ہیں۔
اس ضمن میں ڈسٹرک ہسپتال کے کوآرڈنیٹر بی کے نائیک نے کہا کہ کم از کم ایک ہزار افراد کو مختلف ہسپتالوں میں لایا گیا اور خدشہ ہے متعدد افراد اپنے گھروں میں بے ہوش ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکام گھروں میں بھی تلاشی لے رہے ہیں اور لوگوں کو ہسپتال پہنچانے کے لیے کام کررہے ہیں جو (گیس لیکیج کے وقت) اپنے گھروں میں سوتے ہوئے بے ہوش ہوگئے۔
ہسپتالوں کی سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا گیا کہ ایک ایک بستر پر 2 یا 3 افراد موجود ہیں جن میں سے اکثریت بے ہوش ہیں۔
ایل جی پولیمر کا یہ کیمیکل پلانٹ 50 لاکھ کی آبادی والے شہر کے مضافات میں قائم ہے۔
وساکھا پٹنم کی اسسٹنٹ کمشنر رانی کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پلانٹ بے کار پڑا تھا اور ٹینک میں حرارت اور کیمیائی ردِ عمل کے نتیجے میں گیس کا اخراج ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے باسیوں نے رات ساڑھے 3 بجے گیس کی اطلاع دی اور جو پولیس اہلکار اطلاع ملنے کے بعد یہاں پہنچے ان کا فوراً علاج کروانا پڑا۔
رانی کا مزید کہنا تھا کہ ہوا میں گیس کی مقدار اتنی تھی کہ محسوس ہورہی تھی اور کسی کے لیے بھی وہاں 5 منٹ سے زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں تھا۔
بعدازاں ایل جی کیم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ پلانٹ سے گیس کا اخراج رک گیا ہے، ’گیس لیکیج کی صورتحال قابو میں ہے اور ہم اب اس سے متاثرہ تمام افراد کو فوری علاج فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم گیس لیک اور اموات کی وجوہات اور نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے تحقیقات کررہے ہیں‘۔
دوسری جانب بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گیس لیکیج سے ایک 8 سالہ بچی سمیت 8 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 5 ہزار افراد متاثر ہوئے۔
نیوز 18 ٹیلی ویژن نے فوٹیج میں دکھایا کہ لوگ بے ہوشی کے عالم میں گلیوں میں پڑے ہوئے ہیں، بیچ راستوں میں موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں جبکہ ان کے سوار گر پڑے۔
خیال رہے کہ بھارت نے 1984 میں سب سے بڑی صنعتی تباہی کا سامنا کیا تھا اور ایک کیڑے مار ادویات بنانے والے پلانٹ سے گیس کے اخراج کے نتیجے میں چند دنوں میں ساڑھے 3 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے، بعدازاں آنے والے دنوں میں مزید اموات ہوئیں اور لوگ آج تک اس کے اثرات محسوس کرتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یونین کاربائیڈ پلانٹ کے اطراف رہائش پذیر ایک لاکھ افراد سانس کی تکالیف میں مبتلا ہیں۔
بچ جانے والوں کو سانس اور گردے کے امراض، ہارمونز کے عدم تواز اور دماغی امراض کے ساتھ مختلف اقسام کے کینسر میں مبتلا ہیں جبکہ ان کی نئی نسل زیر زمین آلودہ پانی اور پیدائش کے وقت پلائے گئے ماؤں کے زہریلے دودھ کی وجہ سے بیمار ہے۔
گیس سے متاثر ہونے والی ماؤں کے بچے اب تک جسمانی نقائص، کمزور نظام مدافعت، نشونما رک جانے اور پیدائشی عوارض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔